کرنسی نوٹ کا نصاب
O ہمارے ہاں جو
کرنسی نوٹ ہیں‘ زکوٰۃ دینے کے لیے ان کا نصاب سونے کا ہو گا یا چاندی کے ریٹ سے ان
کا نصاب طے کیا جائے گا۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی کریں۔
یہ فتویٰ پڑھیں: کرنسی کا نصاب
P ہمارے ہاں رائج
کرنسی نوٹ زر مبادلہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ ان کی زکوٰۃ کے متعلق دو مختلف
نظریات ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
\ کچھ اہل علم
کا کہنا ہے کہ کرنسی کے نصاب کے لیے اتنے روپے ہونا ضروری ہے جن سے ساڑھے سات تولہ
سونا خریدا جا سکے۔ آج کل سونے کا بھاؤ تقریبا ایک لاکھ روپیہ تولہ ہے۔ اس لیے
اگر کسی کے پاس ساڑھے سات لاکھ روپیہ ہو تو اس پر زکوٰۃ لاگو ہو گی۔ ان حضرات کا
کہنا ہے کہ ہر ملک میں زر مبادلہ کے طور پر سونے کو معیار بنایا جاتا ہے یعنی ہر
ملک اتنے ہی نوٹ چھاپتا ہے جتنے اس کے پاس سونے کے ذخائر ہوتے ہیں۔
\ کچھ حضرات
کہتے ہیں کہ نقدی کی زکوٰۃ کے لیے چاندی کو معیار بنایا جائے یعنی اتنی نقدی پر
زکوٰۃ لاگو ہو گی جس سے ساڑھے باون تولہ چاندی خریدی جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ
اگر چاندی ایک ہزار روپیہ تولہ ہے تو کم از کم ساڑھے باون ہزار پر زکوٰۃ لاگو ہو گی۔
اس سے اڑھائی فیصد زکوٰۃ ادا کی جائے۔
اس سلسلہ میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ سونے اور چاندی کا نصاب جو رسول اللہe نے مقرر فرمایا
ہے اس میں قطعی طور پر رد وبدل کی کوئی گنجائش نہیں‘ البتہ نقدی کا نصاب چاندی کے
مطابق مقرر کیا جاتا ہے‘ اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
\ ہمارے ہاں
برصغیر میں نوٹوں کے اجراء سے پہلے چاندی کا روپیہ چلتا تھا۔ لہٰذا چاندی کو بنیاد
بنا کر چاندی کی موجودہ قیمت کے حساب سے ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت نکال لی
جائے۔ اس کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ آج کل سعودی عرب میں کاغذی نوٹوں کو
ورقہ کہا جاتا ہے اور یہی لفظ چاندی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
یہ فتویٰ پڑھیں: ٹھیکہ پر لی گئی زمین کا عشر ادا کرنا
\ غرباء ومساکین
کا فائدہ بھی اسی میں ہے کہ چاندی کو معیار بنایا جائے تا کہ تھوڑی مالیت پر زکوٰۃ
وصول کر کے ان سے تعاون کیا جائے۔ یہ تشخیص ہر مقام پر خود کرنا ہو گی کیونکہ چاندی
کا ریٹ بھی بدلتا رہتا ہے۔
No comments:
Post a Comment