حاملہ عورت کا خاوند فوت ہو جائے تو کتنی عدت ہے؟! F20-12-02 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Monday, April 6, 2020

حاملہ عورت کا خاوند فوت ہو جائے تو کتنی عدت ہے؟! F20-12-02


حاملہ عورت کا خاوند فوت ہو جائے تو کتنی عدت ہے؟!

O میرے خاوند جب فوت ہوئے تو مجھے سات ماہ کا حمل تھا۔ عدت کے متعلق میں نے کچھ اہل علم سے رابطہ کیا تو مجھے بتایا گیا کہ عدت چار ماہ دس دن ہے جبکہ بعض علماء کہتے ہیں کہ وضع حمل کے بعد عدت ختم ہو جائے گی۔ اس سلسلہ میں میری رہنمائی کریں۔ نیز بتائیں کہ دوران عدت کیا پابندیاں عائد ہوتی ہیں؟
P جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ وہ عورت خواہ بوڑھی ہو یا نابالغ بچی‘ ہر صورت میں اسے چار ماہ دس دن بطور عدت گذارنے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ’’تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں۔‘‘ (البقرہ: ۲۳۴)
اگر خاوند کی وفات کے وقت بیوی حاملہ تھی تو اس کی عدت کے متعلق اختلاف ہے۔
سیدنا علیt کا موقف ہے کہ ایسی عورت وہ عدت گذارے جو لمبی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چار ماہ دس دن سے پہلے بچہ پیدا ہو جائے تو اسے چار ماہ دس دن ہی پورے کرنا ہوں گے۔ اگر بچہ پیدا ہونے سے پہلے چار ماہ دس دن گذر جائیں تو اسے وضع حمل تک انتظار کرنا ہو گا۔ جبکہ جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ اگر خاوند کی وفات کے وقت اس کی بیوی حاملہ تھی تو بیوی کو وضع حمل تک عدت گذارنا ہو گی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں حاملہ عورت کی عدت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔‘‘ (الطلاق: ۴)
اس موقف کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے سیدنا مسور بن مخرمہt نے بیان کیا ہے کہ ’’سیدہ سبیعہ اسلمیہr کا خاوند فوت ہوا تو یہ حاملہ تھیں‘ وفات کے چند دن بعد اس نے بچہ جنم دیا‘ پھر رسول اللہe کے پاس مسئلہ پوچھنے کے لیے آئیں کہ آیا میں نکاح کر سکتی ہوں تو رسول اللہe نے اسے آگے نکاح کرنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ اس نے نکاح کر لیا۔‘‘ (بخاری‘ الطلاق: ۵۳۲۰)
سیدنا زید بن ارقمt سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ انہوں نے سیدہ سبیعہ اسلمیہr سے پوچھا کہ رسول اللہe نے تجھے کیا فتویٰ دیا تھا؟ تو انہوں نے بتایا: رسول اللہe نے مجھے فتویٰ دیا کہ جب میں بچہ جنم دے لوں تو نکاح کر سکتی ہوں۔ چنانچہ میں نے بچے کی پیدائش کے بعد نکاح کر لیا۔ (بخاری‘ الطلاق: ۵۳۱۹)
سیدہ ام سلمہr کا بیان ہے کہ اسلم قبیلہ کی ایک عورت کا جب خاوند فوت ہوا تو وہ حمل سے تھیں۔ سیدنا ابوالسنابل بن بعککt نے اس کے ساتھ نکاح کرنے کا پیغام بھیجا تو اس عورت نے انکار کر دیا۔ سیدہ ام سلمہ r نے فرمایا کہ جب تک تو لمبی عدت نہیں گذار لیتی تو آگے نکاح نہیں کر سکتی۔ ابھی خاوند کی وفات پر دس دن نہیں گذرے تھے کہ اس نے ایک بچے کو جنم دیا۔ وہ رسول اللہe کے پاس مسئلہ پوچھنے کے لیے آئی تو رسول اللہe نے فرمایا تو نکاح کر سکتی ہے۔ (بخاری‘ الطلاق: ۵۳۴۸)
سیدنا عمرt کا فتویٰ بھی یہی ہے۔ آپt فرماتے ہیں: ’’اگر خاوند کی وفات ہو جائے اور وہ چارپائی پر پڑا ہو اور اسے دفن بھی نہ کیا گیا ہو اور اس دوران اگر اس کی بیوی بچہ جنم دے دے تو اس کی عدت ختم ہے۔ وہ نکاح کر سکتی ہے۔‘‘ (بیہقی: ج۷‘ ص ۴۳۰)
ہمارے رجحان کے مطابق جمہور اہل علم کا موقف ہی درست ہے۔ احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ اگر کسی عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ حمل سے ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ وہ بچہ جنم دینے کے بعد نکاح کر سکتی ہے‘ اگرچہ ازدواجی تعلقات کے لیے نفاس کی مدت پورا کرنا ہو گی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ ’’ان کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں۔‘‘ (البقرہ: ۲۲۲)
یہ آیت اگرچہ حیض سے متعلق ہے تا ہم نفاس کے بھی یہی احکام ہیں۔ واللہ اعلم!


No comments:

Post a Comment

Pages