گھروں میں پرندے رکھنا
O میرا پانچ سال
کا ایک چھوٹا بیٹا ہے‘ اس کے اصرار پر میں نے گھر میں دو طوطے رکھے ہیں‘ مجھے ایک
دوست نے کہا ہے کہ شرعی اعتبار سے گھر میں پرندے رکھنا درست نہیں کیونکہ اس طرح ان
کی آزادی کو ختم کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں ہماری رہنمائی کریں۔
یہ فتویٰ پڑھیں: مشنری اداروں میں کام کرنا
P پرندوں کو کسی
جائز مقصد کے لیے گھر میں رکھنا اور انہیں پالنا جائز ہے۔ لیکن اگر وہ وقت کے ضیاع
کا باعث ہوں تو اس قسم کے مشغلہ سے اجتناب کرنا چاہیے۔ کیونکہ ہر وہ مشغلہ جس کو
جائز حد سے زیادہ اہمیت دی جائے اور اس پر مال اور وقت ضائع کیا جائے وہ ممنوع ہے۔
عام طور پر تین مقاصد کے لیے گھر میں پرندے رکھے جاتے ہیں‘ جن کی تفصیل حسب ذیل
ہے:
\ بچوں کی تفریح طبع: … شریعت کے
دائرے میں رہتے ہوئے چھوٹے بچوں کو خوش رکھنے اور ان کی تفریح طبع کے لیے پرندوں
کو رکھا جا سکتا ہے۔ چنانجہ سیدنا انسt کے چھوٹے مادری
بھائی سیدنا ابوعمیرt نے سیدہ ام سلیمr جو ان کی والدہ
تھیں ان کے گھر میں ایک ’’نغیر‘‘ نامی چڑیا پال رکھی تھی۔ رسول اللہe جب ان کے گھر
تشریف لاتے تو سیدنا ابوعمیرt سے خوش طبعی
کرتے ہوئے ان سے چڑیا کا حال چال پوچھتے تھے۔ چنانچہ امام بخاریa نے ایک عنوان
بایں الفاظ بیان کیا ہے: ’’لوگوں کے ساتھ خوش مزاجی سے پیش آنا۔‘‘ (بخاری‘ الادب‘
باب نمبر: ۸۱)
پھر آپa نے اس عنوان کو
ثابت کرنے کے لیے سیدنا انسt سے مروی ایک حدیث
بیان کی ہے۔ سیدنا انسt فرماتے ہیں:
رسول اللہe ہم میں گھل مل
جاتے‘ یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے: ’’اے ابوعمیر! تیری نغیر نامی چڑیا
نے کیا کیا؟‘‘ (بخاری‘ الادب: ۶۱۲۹)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گھر میں پرندے رکھے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ رسول اللہe نے اس سے منع
نہیں کیا۔
\ ان کا گوشت کھانے کے لیے: … اللہ تعالیٰ
نے جہاں اہل جنت کی ضیافت کا ذکر فرمایا ہے وہاں {لحم طیر} پرندوں کا گوشت بھی بیان
کیا ہے۔ ’’پرندوں کا گوشت جس کی وہ خواہش رکھیں گے۔‘‘ (الواقعہ: ۲۱)
یہ فتویٰ پڑھیں: مرنے کے بعد پنشن کی حیثیت
اس سے معلوم ہوا کہ پرندوں کا گوشت حلال اور طیب ہے۔ اس مقصد کے لیے گھروں میں
پرندے رکھے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ کبوتر اور بٹیر وغیرہ گھروں میں اس مقصد کے لیے
رکھنے میں کوئی حرج نہیں اور ایسا کرنا جائز ہے۔
\ علاج ومعالجہ کے لیے: … کچھ پرندے ایسے
ہیں جن کا گوشت علاج کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً لقوے کا علاج جنگلی کبوتر کے
گوشت سے کیا جاتا ہے۔ کچھ اطباء کینسر کے علاج کے لیے بھی جنگلی کبوتر تجویز کرتے
ہیں۔ اس مقصد کے لیے بھی انہیں گھر میں رکھا جا سکتا ہے۔
\ ناجائز مشغلے کے لیے: … کچھ لوگ فضول
اور خطرناک مشغلے کے لیے گھروں میں کبوتر اور تیتر رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے
پرندوں کو گھر میں رکھنا ناجائز اور حرام ہے۔ چنانچہ امام ابوداؤد نے ایک عنوان بایں
الفاظ بیان کیا ہے: ’’کبوتر بازی کا ذکر۔‘‘ (ابوداؤد‘ الادب: ۵۷) پھر اس کے تحت سیدنا ابوہریرہt سے مروی ایک حدیث
بیان کی ہے۔ رسول اللہe نے ایک آدمی
کو دیکھا وہ کبوتری کا پیچھا کر رہا تھا‘ اسے دیکھ کر آپe نے فرمایا کہ ’’ایک شیطان دوسرے شیطان
کا پیچھا کر رہا ہے۔‘‘ (ابوداؤد‘ الادب: ۴۹۴۰)
یہ فتویٰ پڑھیں: سراغ رساں کتوں کی حیثیت
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کبوتر بازی‘ بٹیر بازی اور تیتر بازی سب ناجائز مشاغل
ہیں۔ اسی طرح مرغ لڑانا بھی ناجائز ہے۔ رسول اللہe نے کبوتر کو شیطان اس لیے کہا کہ
اس کے ناجائز استعمال اور مفاسد کی وجہ سے شیطان خوش ہوتا ہے۔ ایسے کاموں کے حرام
ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ ایسے کاموں میں مشغول ہو کر وقت ضائع کرتے ہیں
حتی کہ نماز کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ بہرحال پرندوں کو جائز مقصد کے لیے گھروں میں
رکھا جا سکتا ہے اور اس کے لیے درج ذیل شرائط ہیں:
\ ان کے ساتھ
اچھا برتاؤ کرے اور ان کی خوراک کا خیال رکھے۔ کیونکہ ان کی خوراک کا بندوبست نہ
کرنا بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک عورت کو بلی کی وجہ سے جہنم میں بھیج
دیا گیا‘ وہ اس کی خوراک کا بندوبست نہ کرتی تھی۔ (بخاری‘ بدء الخلق: ۳۳۱۸)
\ ان کے پالنے
اور گھر میں رکھنے سے دوسرے لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ خاص طور پر ہمسایوں کے لیے وہ
اذیت کا باعث نہ ہوں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انہیں گھر کی چھت پر رکھا جاتا ہے
اور بار بار چھت پر جانے سے ہمسایوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
\ ان پرندوں کے
ذریعے دوسرے کے پرندوں کو پکڑنا مقصد نہ ہو۔ جیسا کہ بعض اوقات گھر میں اس مقصد کے
لیے کبوتر رکھے جاتے ہیں کہ ان کے ذریعے دوسروں کے کبوتر پکڑے جاتے ہیں۔
\ ان کو کھلا
ماحول دیا جائے‘ یعنی ان کا پنجرہ اتنا بڑا ہو کہ وہ آزادی سے اس کے اندر اُڑ سکیں۔
انہیں باہر والا ماحول دینے کی کوشش کی جائے۔
\ پرندوں کو
مقابلہ بازی کے لیے نہ رکھا جائے‘ کیونکہ یہ ناجائز اور فضول مشاغل ہیں۔ اگر ان کے
مقابلوں میں شرط لگائی جائے کہ ہارنے والا جیتنے والے کو کوئی چیز یا نقد رقم ادا
کرے تو یہ جوا ہے جسے قرآن نے شیطانی عمل قرار دیا ہے۔ اگر شرط نہ بھی ہو تب بھی
انہیں بلاوجہ تکلیف دینا حرام اور ناجائز ہے۔ مثلاً کبوتروں کو خاص خوراک کھلا کر
فضا میں اڑایا جاتا ہے جو دیر تک اڑتا رہے وہ جیت جاتا ہے۔ اِسی طرح تیتر کو نشہ
دے کر اسے بولنے پر لگایا جاتا ہے جو دیر تک بولتا رہے وہ میدان مار لیتا ہے۔ ایسا
کرنا حرام اور ناجائز ہے۔
یہ فتویٰ پڑھیں: خودکشی اور ماں کی مامتا
بہرحال کبوتروں‘ چڑیوں‘ تیتروں اور بٹیروں کو گھر کی زینت اور بچوں کی تفریح
طبع کے لیے رکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ ان کی خوراک اور ان کے رہنے کا اچھا انتظام
ہو۔ مقابلہ بازی مقصد نہ ہو۔ کیونکہ ناجائز مقاصد کے لیے پرندوں کو رکھنا شریعت میں
ناجائز اور حرام ہے۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment