ایام میں بیوی کے پاس جانا
O اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس حیض کی حالت میں جائے
تو اس کا کفارہ کیا ہے؟ جو شخص متعدد مرتبہ یہ کام کر چکا ہو اس کے متعلق قرآن و حدیث
میں کیا حکم ہے؟
P حالت حیض میں بیوی کے پاس جانا شرعاً ممنوع ہے۔ ارشاد
باری تعالیٰ ہے:
’’لوگ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیں کہ وہ ایک گندگی ہے لہٰذا
حیض کے دوران عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ۔‘‘
(البقرہ: ۲۲۲)
’’الگ رہو‘‘ اور ’’قریب نہ جاؤ‘‘ ان سے مراد مجامعت کی ممانعت ہے، اگر
کوئی اس حالت میں اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے تو وہ شریعت کی خلاف ورزی کرتا ہے، اس کی
تلافی کفارہ ادا کرنے سے ہو سکتی ہے جیسا کہ حضرت ابن عباسw بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
’’جو شخص اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں مجامعت کرتا ہے اسے ایک دینار یا نصف دینار
صدقہ کرنا چاہیے۔‘‘ (ابوداؤد، الطہارۃ: ۲۶۴)
امام ابوداؤدa فرماتے
ہیں کہ صحیح روایت ایسے ہی ہے کہ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرے یعنی اس میں اختیار
دیا گیا ہے کہ ایک دینار دے یا نصف دینار دے، ممکن ہے کہ یہ اختیار کفارہ دینے والے
کی مالی استطاعت کی وجہ سے ہو یعنی صاحب حیثیت ایک دینار اور کم حیثیت والا نصف دینار
صدقہ کرے، اگرچہ بعض روایات میں اس کی تفصیل ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی کے پاس خون حیض
کے ابتدائی دنوں میں آئے تو ایک دینار دے اور اگر خون رُک جانے کے ایام میں آئے تو
نصف دینار دے۔ (ابوداؤد، الطہارۃ: ۲۶۵)
لیکن یہ روایت صحیح نہیں ہے، البتہ پہلی حدیث صحیح ہے جسے علامہ
البانی a نے
بھی صحیح کہا ہے۔ (ارواء الغلیل ص ۲۱۸ ج ۱)
واضح رہے کہ دینار سے مراد کویتی سکہ نہیں ہے بلکہ شرعی دینار
سونے کا وہ سکہ ہے جو رسول اللہe کے
دور میں رائج تھا، جس کا وزن چار ماشہ چار رتی ہے، جدید اعشاری نظام کے مطابق دینار
کا وزن ۴ گرام ۳۷۴ ملی گرام ہے، خاوند
جتنی مرتبہ بھی اس حالت میں اپنی بیوی کے پاس گیا ہے اسے اتنی مرتبہ یہ صدقہ کرنا ہو
گا تا کہ اس گناہ کی تلافی ہو جائے قرآن کریم میں ہے۔ ’’نیکیاں، گناہوں کا ازالہ کر
دیتی ہیں۔ ‘‘ (ھود: ۱۱۴)
نیک سیرت بیوی کو چاہیے کہ وہ ایسے موقع پر خاوند کو یاد دہانی
کرائے اور اسے ’’مالی صدقہ‘‘ سے آگاہ کر دے، ممکن ہے کہ یاد دہانی کرانے سے وہ باز
رہے اور یہ اقدام نہ کرے۔ واللہ اعلم
No comments:
Post a Comment