بیٹے کی ساس سے نکاح
P ایک
نوجوان کا کسی دو شیزہ سے نکاح ہو گیا، اس کے بعد اس نوجوان کی والدہ محترمہ وفات پا
گئی جب کہ اس کا سسر نکاح سے پہلے انتقال کر چکا تھا تو کیا اس نوجوان کا باپ اس کی
ساس سے نکاح کر سکتا ہے؟ شریعت کی رو سے جواز یا ممانعت واضح فرمائیں۔
P قرآن کریم نے تفصیل سے وضاحت کی ہے کہ کن کن عورتوں
سے نکاح کرنا حرام ہے، ان میں سات خونی، دو رضاعی اور تین سسرالی رشتہ دار خواتین ہیں‘
اسی طرح بیک وقت دو بہنوں کو اپنے عقد میں رکھنا بھی حرام قرار دیا ہے۔
نیز شادی شدہ منکوحہ عورت سے بھی نکاح حرام ہے، احادیث میں مزید
دو رشتوں کی ممانعت کا ذکر ہے کہ پھوپھی‘ بھتیجی اور خالہ بھانجی کو بیک وقت نکاح میں
نہیں رکھا جا سکتا، ان محرمات میں بیٹے کی ساس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا اس سے نکاح
کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، قرآن کریم میں ہے:
’’ان کے ماسوا جتنی
بھی عورتیں ہیں انہیں اپنے مال کے ذریعے حاصل کرنا تمہارے لئے جائز قرار دیا گیا ہے
بشرطیکہ اس سے تمہارا مقصد نکاح میں لانا ہو، محض شہوت رانی نہ ہو۔‘‘ (النساء: ۲۴)
صورت مسئولہ میں نوجوان کا باپ اس کی ساس سے نکاح کر سکتا ہے
شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment