قاری صاحب کو مالِ زکوٰۃ سے تنخواہ دینا F20-27-02 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Friday, November 27, 2020

قاری صاحب کو مالِ زکوٰۃ سے تنخواہ دینا F20-27-02

ھفت روزہ, ہفت روزہ, اھل حدیث, اہل حدیث, اھلحدیث, اہلحدیث, قاری صاحب کو مالِ زکوٰۃ سے تنخواہ دینا,
 

قاری صاحب کو مالِ زکوٰۃ سے تنخواہ دینا

O ایک قاری صاحب کسی مدرسہ میں مدرس ہیں‘ مہتمم نے پندرہ ہزار ماہانہ تنخواہ طے کی ہے لیکن دو ماہ سے اُنہیں تنخواہ نہیں ملی۔ وہ خاصے پریشان ہیں‘ مہتمم صاحب بھی کوئی پختہ بات نہیں کرتے کیا کوئی اہل ثروت براہ راست مالِ زکوٰۃ بطور تنخواہ دے سکتا ہے؟

یہ فتویٰ پڑھیں:                     کس قسم کا صدقہ زیادہ بہتر ہے؟!

P اکثر ملازمین اور مدرسین جو کسی دینی مدرسہ میں خدمات سرانجام دیتے ہیں ان کا مہتمم یا سربراہ ادارہ کے ساتھ عقد ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ خدمات انجام دینی ہیں اور ان کے عوض انہیں متعین معاوضہ دیا جائے گا۔ فریقین کا فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی ذمہ داری ادا کریں۔ ملازمین اور مدرسین طے شدہ شرائط کے مطابق خدمات انجام دیں اور مہتمم حضرات ماہ بماہ ان کا حق الخدمت ادا کریں۔ انہیں چاہیے کہ وہ پہلی یا دوسری تاریخ کو ان کی تنخواہ ادا کر دیں۔ بروقت تنخواہ نہ ملنے کی صورت میں یقینا ملازمین اور مدرسین پریشان ہوں گے۔ اگر سربراہان کوتاہی کرتے ہیں تو مقامی احباب کو چاہیے کہ وہ انہیں بروقت تنخواہوں کی ادائیگی پر آمادہ کریں۔

سوال میں ذکر کردہ صورتحال انتہائی پریشان کن ہے کہ ادارے کا سربراہ اپنے مدرس کو بروقت تنخواہ نہیں دیتا۔ اس کا حل تو یہ ہونا چاہیے کہ اگر ہ ادارہ کے اخراجات کا بندوبست نہیں کر سکتا تو وہ ادارے کو بند کر دے خواہ مخواہ دوسروں کی پریشانی کا باعث نہ بنے تا کہ مدرس بھی اپنا دوسری جگہ پر کوئی بندوبست کر لے۔ لیکن یہاں بہت عجیب ہے کہ سربراہ ادارہ نہ تو مدرس کو فارغ کرتا ہے اور نہ ہی برقوت تنخواہ دیتا ہے۔ ایک تیسرا آدمی مدرس سے کہتا ہے کہ میں زکوٰۃ کی مد سے تمہیں ہر ماہ تنخواہ دیتا رہوں گا جبکہ مدرس تو زکوٰۃ کا حقدار نہیں بلکہ وہ تنخواہ دار ہے۔ اس نے اپنا حق وصول کرنا ہے جو براہ راست زکوٰۃ کی مد سے وصول نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں اگر مدرس زکوٰۃ کا حقدار ہے تو وہ زکوٰۃ تنخواہ کے طور پر نہیں بلکہ زکوٰۃ کا حقدار ہونے کی حیثیت سے وصول کرے گا۔ وہ صاحب ثروت آدمی بھی سربراہ ادارہ کو زکوٰۃ نہیں دیتا اس کا کہنا ہے کہ وہ اسے کسی اور مصرف میں خرچ کر دے گا اور مدرس بے چارہ تو پھر بھی پریشان رہے گا۔

زکوٰۃ کے مصارف طے شدہ ہیں‘ ان میں براہ راست زکوٰۃ سے تنخواہیں دینا شامل نہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ زکوٰۃ‘ سربراہ ادارہ کے پاس جمع ہوتی ہے‘ پھر وہ اسے مدرسہ کی ضروریات پر صرف کرتا ہے۔ مثلاً طلبہ کی خوراک‘ کتب‘ پانی‘ بجلی اور گیس وغیرہ کے بل اور مدرسین کی تنخواہیں‘ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ مستری‘ مزدوروں کو جو مدرسہ میں کام کرتے ہیں کوئی آدمی اٹھے اور انہیں مزدوری‘ مال زکوٰۃ سے ادا کر دے یا مدرس کو براہ راست کوئی زکوٰۃ دے دے اور کہہ دے کہ یہ تمہاری اس مہینے کی تنخواہ ہے۔

یہ فتویٰ پڑھیں:                     لکی کمیٹی

بہرحال سربراہ ادارہ کو چاہیے کہ وہ متبرعین حضرات سے زکوٰۃ وصول کر کے اسے مدرسہ کے مصارف میں دیانتداری سے صرف کرے اور ملازمین ومدرسین کو بروقت تنخواہ دینے کا اہتمام کرے تا کہ انہیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ واللہ اعلم!


No comments:

Post a Comment

Pages