عارضی قیام گاہ کے نزدیکی سفر پر قصر F10-27-01 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Sunday, March 1, 2020

عارضی قیام گاہ کے نزدیکی سفر پر قصر F10-27-01


عارضی قیام گاہ کے نزدیکی سفر پر قصر

O ہم چند ساتھیوں کو اپنے امام مسجد کے ہمراہ ایک قریبی گاؤں جانے کا اتفاق ہوا جو کہ ہمارے گاؤں سے تقریبا دو میل کی مسافت پر ہے۔ وہاں ہمارے امام صاحب نے ہمیں نماز ظہر پڑھاتے وقت کہا کہ میں مسافر کی نماز قصر پڑھوں گا، آپ پوری پڑھ لیں۔ ہمارے دریافت کرنے پر انہوں نے کہا کہ میرا اصلی وطن چیچہ وطنی ہے جو یہاں سے تقریبا دو سو میل ہے‘ لہٰذا میں مسافر ہوں حالانکہ ہمارے امام کم و بیش ایک سال سے ہمارے ہاں مقیم ہیں‘ اور ہمیں پوری نماز پڑھاتے ہیں۔ کیا امام صاحب کا نماز قصر کے متعلق استدلال صحیح ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
P فقہاء امت نے وطن کی دو اقسام لکھی ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
1       وطن اصلی: وہ مقام جہاں انسان پیدا ہوا ہو‘ اور اپنے والدین یا اہل و عیال کے ہمراہ وہاں رہائش رکھے ہوئے ہو۔
2       وطن اقامت: وہ مقام جہاں وہ شرعی مسافت سے زیادہ دنوں کیلئے تردد کے بغیر رہائش رکھے ہوئے ہو۔
احکام کے اعتبار سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے‘ سوال میں ذکر کردہ امام مسجد ایک سال سے کسی گاؤں میں بغرض امامت و خطابت مقیم ہیں اور وہاں نماز پوری پڑھاتے ہیں۔ مذکورہ گاؤں ان کیلئے وطن اقامت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے حالات میں اگر وہ دو یا تین میل کی مسافت پر واقع کسی گاؤں جاتا ہے تو اسے پوری نماز پڑھنا ہوگی۔ واضح رہے کہ شرعی مسافت سے مراد یہ ہے کہ دوران سفر‘ قیام پڑاؤ یا منزل مقصود پر پہنچنے اور وہاں سے روانگی کے دن کے علاوہ اگر تین دن اور تین رات ٹھہرنے کا ارادہ یقینی ہو تو نماز قصر ادا کرنا چاہیے کیونکہ یہ شرعی مسافت ہے اگر اس سے زیادہ دنوں کا قیام مقصود ہو تو نماز پوری پڑھنا ہو گی۔
چنانچہ رسول اللہe حجۃ الوداع کے موقع پر چار ذوالحجہ صبح کے وقت مکہ مکرمہ پہنچے اور آٹھویں ذوالحجہ صبح کی نماز ادا کر کے منیٰ روانہ ہوئے یعنی آمد اور روانگی کا دن نکال کر پانچ‘ چھ اور سات ذوالحجہ تک تین دن مکمل قیام کیا اور یہ قیام اتفاقی نہیں بلکہ حسب پروگرام تھا، اس دوران آپ قصر کرتے رہے۔ اس موقف کی تائید رسول اللہe کے ایک دوسرے فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ آپﷺ نے مہاجرین کو مناسک حج ادا کرنے کے بعد صرف تین دن مکہ مکرمہ میں ٹھہرنے کی اجازت دی۔ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا: ’’حج ادا کرنے کے بعد مہاجر تین دن مکہ میں ٹھہر سکتا ہے۔‘‘ (مسلم‘ الحج: ۳۲۹۷)
رسول اللہe کے اس فرمان کے مطابق تین دن اور تین رات کے قیام والا ایک مسافر انسان مقیم کے حکم میں نہیں آتا بلکہ اس قدر قیام کرنے سے اس کی مسافرانہ حیثیت برقرار رہتی ہے‘ اس سے زیادہ دنوں کا قیام اگر یقینی طور پر ہے تو یہ اس کی مسافرانہ حیثیت کے منافی ہے اور ایسے حالات میں اسے پوری نماز پڑھنا ہوگی، ہاں اگر قیام کے دوران تردد اور بے یقینی کی کیفیت ہے تو ایسے حالات میں وہ جتنے دن بھی قیام کرے اسے نماز قصر ادا کرنے کی اجازت ہے۔ مذکورہ امام مسجد بھی شاید اسی قسم کی غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہوں کہ مجھے نا معلوم کب جماعت والے یہاں سے فارغ کر دیں لیکن سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پورے اذعان و یقین سے وہاں رہائش رکھے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مقتدیوں کو پوری نماز پڑھاتے ہیں‘ بہرحال ان کا کسی قریبی گائوں میں جا کر نماز قصر پڑھنا محل نظر ہے، انہیں وہاں بھی پوری نماز پڑھنا چاہیے تھی۔ (واللہ اعلم)

No comments:

Post a Comment

Pages