نماز استسقاء کا طریقہ
O نماز استسقاء کا کیا طریقہ ہے؟ کیا امام دوسری رکعت
میں رکوع کے بعد قنوت وتر کی طرح کرے گا اور کیا وہ الٹے ہاتھوں دعا کرے گا؟ کتاب و سنت کے مطابق اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔
P نماز استسقاء میں دوران نماز دعا کرنے کا ثبوت نہیں
مل سکا بلکہ نماز سے پہلے رسول اللہe نے بڑی عاجزی اور انکساری کے ساتھ بارش کی دعا کی، جیسا
کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے‘ جسے سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں:
’’لوگوں نے رسول
اللہe سے
بارش نہ ہونے کی بناء پر قحط سالی کی شکایت کی تو آپe نے عیدگاہ میں منبر لے جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہاں
منبر رکھ دیا گیا، آپ نے لوگوں سے ایک دن کا وعدہ کیا کہ وہ سب اس دن باہر نکلیں‘
پھر آپ اس وقت نکلے جب سورج کا ایک کنارہ ظاہر ہو چکا تھا، آپ منبر پر فروکش ہوئے۔
آپ نے لوگوں کو وعظ و نصیحت فرمائی اور اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا کی۔ آپ نے آہستہ
آہستہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھانا شروع کیا حتیٰ کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر
آنے لگی‘ اس کے بعد آپ لوگوں کی طرف پشت کر کے کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر کو الٹا
کیا پھر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور منبر سے نیچے تشریف لائے پھر دو رکعت ادا
کیں‘ اللہ تعالیٰ نے اس لمحہ آسمان میں بادل ظاہر کئے وہ گرجے اور بجلی چمکی پھر بارش
برسنے لگی۔‘‘ (ابودائود‘ الصلوٰۃ: ۱۱۷۳)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دو رکعت پڑھنے سے پہلے رسول اللہe نے
خطبہ دیا اور دعا مانگی۔ جب کہ حضرت ابن عباسؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے
دو رکعت پڑھنے کے بعد خطبہ دیا لیکن وہ عام خطبہ نہیں تھا، بلکہ وہ انکساری، عاجزی،
اللہ کی کبریائی اور دعا پر مشتمل تھا۔ (ترمذی، الصلوٰۃ: ۵۵۵)
بارش کیلئے نماز ادا کئے بغیر بھی دعا کرنا مشروع ہے‘ جیسا کہ
رسول اللہe نے
دوران خطبہ بارش کیلئے دعا کی تھی ممکن ہے کہ آپ نے جمعہ کی دو رکعت کو ہی کافی خیال
کیا ہو‘ جیسا کہ امام بخاریؒ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان قائم کیا ہے۔ (صحیح بخاری‘
الاستسقاء باب نمبر۹)
بارش کیلئے دعا کرتے وقت اپنے ہاتھ الٹے کرنے کے متعلق ہمارا
موقف یہ ہے کہ الٹے ہاتھ دعا مانگنا منع ہے‘ جیسا کہ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب تم اللہ سے سوال کرو تو اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے مانگا
کرو‘ ہاتھوں کی پشت سے نہ مانگا کرو۔‘‘ (ابوداؤد‘ الوتر: ۱۴۸۶)
دعا کا یہ ادب عام دعائوں کیلئے ہے مگر نماز استسقاء میں جب
قحط اور خشکی دور کرنے کی دعا کی جائے تو نیک شگونی کے طور پر ہاتھوں کی پشت اوپر کی
جانب کی جائے بلکہ مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری دعا میں ہاتھوں کی پشت اوپر
نہ رکھی جائے بلکہ ایک دفعہ اشارہ کر دیا جائے‘ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان
ہے کہ رسول اللہﷺ نے بارش کیلئے دعا فرمائی تو اپنے دونوں ہاتھ الٹی سمت سے آسمان
کی طرف اٹھا کر اشارہ فرمایا۔ (مسلم‘ الاستسقاء: ۸۹۶)
امام نوویؒ لکھتے ہیں کہ بلائوں اور مصیبتوں کو دور کرنے کیلئے
جب دعا کی جائے تو الٹے ہاتھوں سے دعا مانگنا مشروع ہے اور جب کوئی چیز مانگنا ہو تو
سیدھے ہاتھ آسمان کی طرف کئے جائیں۔ (فتح الباری ص ۶۶۸ ج ۲)
ہاتھ الٹے کرنے سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری حالت
کو تبدیل کر دے جیسا کہ چادر الٹنے میں حکمت بیان کی جاتی ہے‘ البتہ حضرت انسt سے
مروی حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ دعاء استسقاء الٹے ہاتھوں سے کی جائے‘ آپ بیان کرتے
ہیں کہ رسول اللہe بارش
کیلئے اس طرح دعا کرتے تھے پھر انہوں نے اپنے ہاتھ لمبے کر کے دکھائے اور اپنی ہتھیلیوں
کو زمین کی طرف کیا۔ (ابوداؤد، الاستسقاء: ۱۱۷۱)
بہرحال ہاتھوں کی پشت کو آسمان کی طرف کرنا اور چادروں کو پلٹنا
یہ نیک فالی کے طور پر ہے یعنی اے اللہ! جس طرح ہم نے اپنے ہاتھ الٹے کر لئے ہیں اور
چادروں کو پلٹ لیا ہے تو بھی موجودہ صورت حال کو اس طرح بدل دے، بارش برسا کر قحط سالی
ختم کر دے اور تنگی کو خوشحالی میں بدل دے، لیکن نماز وتر کی طرح دوران نماز دعا کرنا
کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
No comments:
Post a Comment