کم از کم مدتِ اعتکاف
O میں اپنے کاروبار میں مصروف رہتا ہوں‘ لیکن مجھے اعتکاف
کا بھی شوق ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ رمضان کے آخری تین دنوں کا اعتکاف کر لوں‘ کیا کتاب
وسنت کی روشنی میں مجھے ایسا کرنے کی اجازت ہے؟ وضاحت کریں۔
P رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا بہت بڑی سعادت
ہے۔ رسول اللہe سے
رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرنا ثابت ہے۔ چنانچہ امام بخاریa نے
اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا۔‘‘
(بخاری‘ الاعتکاف‘ باب نمبر ۱)
پھر آپ نے سیدنا عبداللہ بن عمرw سے مروی ایک حدیث پیش کی ہے جس کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
’’رسول اللہe رمضان
کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے۔‘‘ (بخاری‘ الاعتکاف: ۲۰۲۵)
نیز سیدہ عائشہr فرماتی
ہیں کہ رسول اللہe رمضان
کے آخری عشرہ میں پابندی سے اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ آپ اللہ کو پیارے ہو گئے۔
پھر آپe کے
بعد آپ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی تھیں۔ (بخاری‘ الاعتکاف: ۲۰۲۶)
ان احادیث سے درج ذیل احکام ومسائل معلوم ہوتے ہیں:
\ آخری عشرہ کا
مسجد میں اعتکاف کرنا مسنون عمل ہے۔
\ یہ عمل منسوخ
نہیں کیونکہ رسول اللہe کی
وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے بھی اس عمل کو جاری رکھا۔
\ اعتکاف کی مسنون
مدت کم از کم ایک دن ہے‘ اگرچہ اس سے کم بھی جائز ہے۔
\ مسجد میں اعتکاف
کرنا مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے یکساں ہے۔
\ اعتکاف ایک سنت
مؤکدہ ہے۔
ان احادیث کے پیش نظر فقہاء ومحدثین نے اعتکاف کو دو اقسام میں
تقسیم کیا ہے:
b مسنون: … جو سنت نبوی سے ثابت ہوتا ہے‘ اس کی عام مدت دس دن ہے اور رمضان کے آخری عشرہ
کی صورت میں ۹ یا ۱۰ دن بشرط رؤیت ہلال
عید۔
b واجب: … اس سے مراد وہ اعتکاف ہے جو معتکف اللہ تعالیٰ سے عہد کر کے اپنے آپ پر ضروری
قرار دے لیتا ہے۔ اس کی مدت تعین نہیں۔ ایک دن کا بھی ہو سکتا ہے بلکہ ایک رات کا اعتکاف
بھی ہو سکتا ہے‘ اس کا کوئی وقت بھی متعین نہیں ہے۔ رمضان اور غیر رمضان دونوں اوقات
میں ہو سکتا ہے۔
سائل کو چاہیے کہ اگر سنت کے مطابق عمل کرنا چاہتا ہے تو وہ
رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کر لے اور اپنے کاروبار کی قربانی دے‘ تا ہم جائز ہے
کہ وہ حسب استطاعت چند دنوں کا اعتکاف کر لے۔ لیکن اعتکاف بیٹھ جائے تو پھر کاروبار
کی فکر نہ کرے بلکہ دنیاوی باتوں میں مشغول ہونے کے بجائے دوران اعتکاف ذکر الٰہی‘
تلاوت قرآن اور نوافل پڑھنے کی پابندی کرے۔
No comments:
Post a Comment