قطبین میں افطار
O قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کی افطاری کا وقت
رات کے آغاز تک ہے‘ لیکن کرہ ارضی کے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں چھ ماہ دن اور چھ ماہ
رات ہوتی ہے۔ مثلاً قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بعض علاقے ایسے ہیں وہاں سحر وافطار
کے لیے کیا معیار ہو گا؟
P بلاشبہ قرآن کریم میں رات تک روزہ پورا کرنے کا حکم
ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور فجر کے وقت جب تک سفید دھاری‘ کالی دھاری سے واضح
طور پر نمایاں نہ ہو جائے تم کھا پی سکتے ہو‘ پھر رات تک اپنے روزے کو پورا کرو۔‘‘
(البقرہ: ۱۸۷)
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ روزے کا وقت طلوع فجر سے آغاز رات
یعنی غروب آفتاب تک ہے۔ غروب آفتاب کے فوراً بعد روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ احادیث
میں اس امر کی مزید وضاحت ہے‘ چنانچہ امام بخاریa نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’روزہ دار کو
اپنا روزہ کس وقت افطار کرنا چاہیے۔‘‘ (بخاری‘ الصوم‘ باب نمبر ۴۳)
اس عنوان کے تحت آپ نے سیدنا ابوسعید خدریt کا
ایک عمل پیش کیا ہے کہ انہوں نے جب خود سورج کی ٹکیہ کو غروب ہوتے دیکھا تو روزہ افطار
کر دیا۔ انہوں نے احتیاط کے پیش نظر مزید انتظار نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ
رات کے کسی حصے کا روزہ رکھنا جائز نہیں۔ پھر جو احادیث پیش کی ہیں ان میں تین چیزوں
کو روزہ افطار کرنے کے لیے مدار بنایا گیا ہے:
\ جب سورج کی ٹکیہ
غروب ہو جائے۔
\ جب مغربی افق
سے دن رخصت ہو جائے۔
\ جب مشرقی افق
سے رات کا اندھیرا اوپر آجائے۔
ان ہر سہ امور کے یقینی وقوع کے بعد روزہ افطار کرنے میں مزید
دیر نہیں کرنا چاہیے۔ چونکہ یہود ونصاریٰ روزہ دیر سے افطار کرتے ہیں اور ہمیں ان کی
مخالفت کا حکم ہے۔ اس لیے غروب آفتاب کے بعد احتیاط کے نام پر مزید انتظار کرنا شریعت
کی خلاف ورزی ہے۔
باقی سوال میں جو لکھا گیا ہے کہ قطب شمالی اور قطب جنوبی میں
چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات ہوتی ہے وہاں سحر وافطار کا کیا معیار ہو گا؟ ہمارے
رجحان کے مطابق یہ سوال برائے سوال ہی ہے کیونکہ قطبین میں اتنی سردی ہوتی ہے کہ وہاں
انسانوں کا زندہ رہنا ہی ناممکن ہے۔ پھر جہاں سے انسانی آبادی شروع ہوتی ہے وہاں کے
دن رات خط استواء کی طرح واضح نہ سہی البتہ صبح وشام کے آثار وہاں پوری باقاعدگی کے
ساتھ افق پر نمایاں ہوتے ہیں۔ وہاں کے باشندے افق پر نمایاں ہونے والے دن رات کے آثار
کا لحاظ رکھ کر اپنے سونے‘ جاگنے‘ کام کرنے اور تفریح کے اوقات مقرر کرتے ہیں۔ لہٰذا
کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ آثار نماز اور سحر وافطار کے معاملے میں وقت کی تعیین کا کام
نہ دے سکیں۔ پھر دجال کے ظہور کے زمانے میں دن رات کا موجودہ نظام بھی محدود مدت کے
لیے معطل ہو جائے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ دجال زمین پر چالیس دن رہے گا۔ جن میں
سے پہلا دن ایک سال کے برابر ہو گا اور دوسرا دن ایک مہینہ کے برابر اور تیسرا دن ایک
ہفتے کے مساوی‘ باقی دن عام دنوں کی طرح ہوں گے۔ صحابہ کرام] نے عرض کیا‘ اللہ کے رسول!
وہ دن جو سال کے برابر ہو گا کیا اس دن میں ہمیں ایک دن کی صرف پانچ نمازیں کافی ہوں
گی؟ آپe نے
فرمایا: ’’اس دن میں اس کی مقدار کے مطابق اندازہ کر لینا۔‘‘ (مسلم‘ الفتن: ۲۹۳۷)
اس حدیث کے مطابق ایک سال لمبے دن میں وقت کا اندازہ کر کے پورے
سال کی نمازیں ادا کرنے کا حکم ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ اس وقت انسانوں کے پاس ایسے
ذرائع ہوں گے جن سے وہ وقت کا اندازہ کر سکیں گے۔ اس میں گھڑی کی ایجاد کے متعلق پشین
گوئی ہے۔ اس حدیث سے قطب شمالی اور قطب جنوبی کے ان علاقوں کے بارے میں رہنمائی ملتی
ہے جن کا سوال میں ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ جہاں دن رات کی مقدار معمول سے مختلف ہے
اور ان علاقوں کے بارے میں بھی جہاں سال کے بعض حصوں میں دن رات کا معروف نظام نہیں
رہتا‘ ایسے علاقوں میں نماز اور روزے کا اندازہ گھڑی دیکھ کر کیا جائے گا۔ اسی طرح
اگر کوئی انسان خلا میں جائے تو وہاں بھی اسی اصول کو مد نظر رکھے گا۔
ہمارے رجحان کے مطابق جن علاقوں میں چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ
کی رات ہے وہاں سخت سردی کی وجہ سے انسانی آبادی کا ہونا ممکن نہیں اور جن علاقوں
میں انسانی آبادی موجود ہے وہاں گھڑی کے مطابق سحر وافطار کا اہتمام کیا جائے گا۔
اسی طرح نمازوں کی ادائیگی بھی وقت کے مطابق ہو گی۔
No comments:
Post a Comment