صدقۃ الفطر کے لیے بیت المال
O ہماری مسجد میں ایک بیت المال قائم کیا گیا ہے جس میں
فطرانہ اور چرمہائے قربانی کو جمع کیا جاتا ہے‘ پھر اس سے مسجد کے امام اور خطیب کی
تنخواہ دی جاتی ہے‘ اس قسم کے بیت المال کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
P لغوی اعتبار سے ہر اس گھر کو بیت المال کہا جاتا ہے
جو کسی بھی قسم کے مال کی حفاظت کے لیے تیار کیا جائے‘ لیکن اصطلاحی طور پر اس سے مراد
وہ ادارہ ہے جو اہل اسلام سے ان کے اجتماعی اموال وصول کر کے ان کے اجتماعی کاموں پر
صرف کرنے کا ذمہ دار ہو‘ اسے اسلام کے ابتدائی دور میں بیت مال المسلمین یا بیت مال اللہ کہا جاتا
تھا‘ آخر اس پر بیت المال کا اطلاق ہونے لگا۔
یہ فتویٰ پڑھیں: حالت
جنابت میں روزہ رکھنا
رسول اللہe کے
عہد مبارک میں اس قسم کے اجتماعی مال کو فوراً خرچ کر دیا جاتا تھا۔ رسول اللہe کے
دور میں صدقہ فطر وصول کرنے والے سرکاری کارندے ہوتے تھے جو عید سے ایک دو دن پہلے
صدقہ فطر وصول کر لیتے تھے۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرw کے
متعلق روایات میں ہے کہ وہ سرکاری کارندوں کو اپنا اور اپنے اہل وعیال کا فطرانہ عید
سے ایک دو دن پہلے جمع کروا دیتے تھے۔ (بخاری‘ الزکاۃ: ۱۵۱۱)
اسے سرکاری طور پر جمع کیا جاتا اور اس کی حفاظت کے لیے باقاعدہ
ڈیوٹی لگائی جاتی تھی۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہt کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ اس کام پر مامور تھے۔ (بخاری‘
الوکالہ: ۲۳۱۱)
اسے فوری طور پر حقداروں تک پہنچا دیا جاتا تھا‘ اسے اپنی مرضی
سے صرف کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہمارے ہاں عام طور پر مندرجہ ذیل بیت المال قائم کرنے
کا اہتمام کرتے ہیں پھر اسے ’’اپنا مال اپنوں‘‘ پر صرف کیا جاتا ہے۔
b بڑی فیکٹریوں کے
مالکان یا وسیع کاروبار رکھنے والے مذہبی حضرات اپنے ہاں بیت المال قائم کر لیتے ہیں‘
اس میں زکوٰۃ‘ فطرانہ اور چرمہائے قربانی کی قیمت جمع کی جاتی ہے پھر فیکٹری میں قائم
کردہ مسجد کے اخراجات اسی مد سے پورے کیے جاتے ہیں۔
b دینی ذہن رکھنے
والے لوگ ایک اجتماعی بیت المال بنا لیتے ہیں‘ اس میں مقامی طور پر مال زکوٰۃ‘ عشر‘
فطرانہ اور چرمہائے قربانی سے آمدہ رقم جمع کی جاتی ہے پھر اس سے امام مسجد کی تنخواہ
اور خطیب کا حق الخدمت ادا کیا جاتا ہے۔ نیز لائبریری ودیگر اخراجات پورے کیے جاتے
ہیں۔
b بعض دور اندیش
حضرات اپنے طور پر ایک انفرادی بیت المال بنا لیتے ہیں پھر لوگوں سے چندہ مانگ مانگ
کر اسے بھرتے ہیں پھر اسے بچیوں کے جہیز کے نام سے استعمال کیا جاتا ہے۔ نگران ہونے
کی حیثیت سے اپنی ضروریات کو بھی اس سے پورا کیا جاتا ہے۔
یہ فتویٰ پڑھیں: نفلی
روزے کی نیت
صورت مسئولہ میں بھی اسی طرح کی صورت حال بیان کی گئی ہے‘ ہمارے
نزدیک غریبوں‘ یتیموں اور بیواؤں کا مال غلط طریقہ سے استعمال کیا جاتا ہے‘ اس قسم
کے چور دروازوں کو بند ہونا چاہیے۔ ہمارے نزدیک ہر مسجد کا اپنا بیت المال ایک غیر
اسلامی حرکت ہے اس کی حوصلہ شکنی ہونا چاہیے۔ اس کے لیے یا تو جماعتی سطح پر ایک بیت
المال قائم کیا جائے یا پھر انسان انفرادی طور پر اپنی زکوٰۃ‘ عشر‘ فطرانہ اور چرمہائے
قربانی کو صحیح مصرف میں خرچ کرنے کا پابند ہے۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment