فطرانہ کیوں اور کتنا؟!
O ماہِ رمضان کے بعد ہم لوگ عید سے پہلے فطرانہ کیوں دیتے
ہیں؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے‘ نیز کتنا دینا چاہیے؟ نیز آنے والے مہمان کا فطرانہ
بھی میزبان کے ذمے ہے جیسا کہ مشہور ہے‘ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔
P انسان جب روزہ رکھتا ہے تو کوشش کے باوجود بشری تقاضوں
سے مجبور ہو کر بعض اوقات کوئی کمزوری یا کوتاہی سرزد ہو جاتی ہے۔ صدقہ فطر کے ذریعے
اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔ نیز کچھ نادار اور مفلس لوگ عید جیسے ملی تہوار کی خوشیوں
سے محروم رہ جاتے ہیں۔ صدقہ فطر کے ذریعے ان سے تعاون کر کے انہیں اس قابل بنایا جاتا
ہے کہ وہ عید کا اضافی خرچ برداشت کرنے کے قابل ہو جائیں اور زیر بار ہوئے بغیر عید
کی خوشیوں میں شریک ہونے کے لیے کچھ اہتمام کر سکیں۔
یہ فتویٰ پڑھیں: سحری
کھانا
چنانچہ سیدنا ابن عباسw کا بیان ہے کہ رسول اللہe نے
صدقہ فطر کو فرض قرار دیا تا کہ روزے کے لیے لغویات اور بے ہودگی سے پاکیزگی حاصل ہو
جائے۔ نیز مساکین کے لیے طعام کا بندوبست ہوجائے۔ (ابوداؤد‘ الزکاۃ: ۱۶۰۹)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔
جیسا کہ امام بخاریؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’صدقہ فطر کے فرض ہونے
کا بیان۔‘‘ (بخاری‘ الزکاۃ‘ باب نمبر ۷۰)
پھر آپ نے سیدنا ابن عمرw سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہe نے
صدقہ فطر کو فرض قرار دیا ہے۔ (بخاری‘ الزکاۃ: ۱۵۰۳)
صدقہ فطر کی مقدار ایک صاع ہے اور دوران سال جو خوراک بیشتر
طور پر استعمال کی جاتی ہے‘ اس سے ادا کیا جائے۔ ہمارے برصغیر میں گندم استعمال ہوتی
ہے لہٰذا ہمیں گندم کی صورت میں ایک صاع گھر کے ہر ہر فرد کی طرف سے ادا کرنا چاہیے
اور اسے نماز عید کی ادائیگی سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول
اللہe نے
نماز عید کے لیے جانے سے پہلے پہلے فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (بخاری‘ الزکاۃ:
۱۵۰۳)
یہ فتویٰ پڑھیں: احتساب
کے معنی
ہمارے رجحان کے مطابق اس کا وزن دو کلو سو گرام ہے‘ جبکہ کچھ
اہل علم اڑھائی کلو کے فاعل اور قائل ہیں۔ بعض حالات میں اس کی قیمت بھی دی جا سکتی
ہے لیکن بہتر ہے کہ جنس ہی دی جائے۔ آنے والے مہمان کا صدقہ فطر میزبان کے ذمے نہیں
بلکہ مہمان خود اسے ادا کرنے پر پابند ہے۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment