سیدنا عیسیٰu کی صحابیت
O ہمارے ہاں ایک
خطیب نے دوران خطبہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ سیدنا عیسیٰ بن مریمi نے معراج کی رات رسول اللہe کو بچشم خود دیکھا‘
لہٰذا وہ صحابی ہیں۔ ہم نے یہ مسئلہ پہلے نہیں سنا تھا‘ اس کے متعلق وضاحت کر دیں۔
یہ فتویٰ پڑھیں: عذابِ قبر
P اس میں کوئی شک
نہیں کہ سیدنا عیسیٰu کو زندہ آسمان
کی طرف اُٹھا لیا گیا اور وہ آسمانوں پر اپنے جسد عنصری کے ساتھ زندہ ہیں۔ معراج
کی رات‘ انہوں نے رسول اللہe سے ملاقات کی
ہے۔ قرب قیامت کے وقت وہ اسی جسم کے ساتھ زمین پر اتریں گے اور شریعت محمدی کے
مطابق فیصلے کریں گے۔ پھر ان کو موت آئے گی۔ اس حد تک تو امت کا اجماع اور اتفاق
ہے لیکن ان کے صحابی ہونے کا مسئلہ بہت بعد کی بات ہے۔ علماء امت میں سے علامہ ذہبیa نے ان کو صحابی
ہونے کی صراحت کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’انہوں نے معراج کی رات رسول اللہe کو دیکھا ہے
اور آپe سے محو گفتگو
ہوئے ہیں‘ اس لیے وہ صحابی ہیں اور صحابہ میں سے آخری آخری وفات انہی کی ہو گی۔‘‘
(تجرید اسماء الصحابہ: ج۱‘ ص ۴۳۲)
اس بات کو بطور پہیلی بھی بیان کیا جاتا ہے کہ وہ کونسی شخصیت ہے جو اس امت میں
سیدنا ابوبکرt سے افضل ہے۔ اس
کا جواب سیدنا عیسیٰu دیا جاتا ہے۔
(الطبقات للسبکی: ج۹‘ ص ۱۱۵)
حافظ ابن حجرa کا رجحان بھی یہی
معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیاءo میں سے صرف سیدنا
عیسیٰu ہیں جنہیں صحابیت
کا شرف حاصل ہے کیونکہ وہ آسمانوں پر زندہ اٹھائے گئے تھے اور اسی زندگی کے ساتھ
انہوں نے معراج کی رات‘ رسول اللہe سے ملاقات کی۔
نیز وہ قرب قیامت کے وقت زمین پر اتریں گے اور ہماری شریعت کو نافذ کریں گے۔
(الاصابہ: ج۴‘ ص ۴۳۴)
ہمارے رجحان کے مطابق سیدنا عیسیٰu کو صحابی ثابت
کرنے پر توانائیاں ثابت کرنا محض تکلف ہے کیونکہ آپ اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں۔
جیسا کہ قرآن کریم نے اس کی صراحت کی ہے اور یہ مقام صحابیت سے بہت اونچا مرتبہ
ہے۔ بہرحال اب ہم علمی اعتبار سے اس دعویٰ کا جائزہ لیتے ہیں تا کہ یہ مسئلہ بھی
نکھر کر سامنے آجائے۔
پہلے ہم صحابی کی تعریف کرتے ہیں‘ پھر صحابیت کو جانچنے کے طریقے بیان کریں
گے۔ آخر میں ہم اس کا جائزہ لیں گے۔ واللہ المستعان!
صحابی کی تعریف یہ ہے کہ جس نے بحالت ایمان‘ رسول اللہe سے ملاقات کی ہو اور ایمان پر ہی
اس کا خاتمہ ہوا ہو‘ اگر کسی نے ایمان کے بغیر ملاقات کی یا ایمان کی حالت میں
ملاقات تو کی لیکن بعد میں مرتد ہو گیا اور ارتداد کی حالت میں ہی موت آئی تو ایسے
شخص کو صحابی نہیں کہا جائے گا۔ ہاں اگر مرتد دوبارہ مسلمان ہو جائے اور توبہ کر
لے پھر اسلام پر ہی اسے موت آ جائے تو وہ بدستور صحابی ہو گا۔
یہ فتویٰ پڑھیں: قرآنی استخارہ
صحابی کی صحابیت جاننے کے لیے درج ذیل پانچ طریقے ہیں:
\ تواتر: … کسی شخص کے
متعلق تواتر کے ساتھ ثابت ہو کہ وہ رسول اللہe کا صحابی ہے جیسا کہ عشرہ مبشرہ ] ہیں۔
\ شہرت: … مشہور روایات
سے یہ ثابت ہو کہ فلاں فلاں صحابی ہیں جیسا کہ سیدنا ضمام بن ثعلبہt اور سیدنا
عکاشہ بن محصنt ہیں۔
\ کسی معروف صحابی کی خبر: … کوئی معروف
صحابی کسی دوسرے کے متعلق بیان کرے کہ فلاں شخص رسول اللہe کے صحابہ میں سے تھا۔
\ ثقہ تابعی کی خبر: … معتبر تابعین
میں سے کوئی بیان کرے کہ فلاں شخص‘ رسول اللہe کے صحابہ میں سے ہیں۔
\ شخصی دعویٰ: … کوئی خود دعویٰ
کرے کہ میں رسول اللہe کی صحبت سے
مستفید ہوا ہوں بشرطیکہ وہ عادل اور ثقہ ہو اور اس کے دعویٰ کے ثبوت کا امکان بھی
ہو۔ مثلاً کوئی شخص رسول اللہe کی وفات کے بعد
سو سال تک اپنے صحابی ہونے کا دعویٰ کرے تو یہ بات کسی حد تک مانی جا سکتی ہے۔ لیکن
مدت مدید کے بعد اس قسم کا دعویٰ قبول نہیں ہو گا‘ جیسا کہ رتن ہندی نے چھ سو سال
بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس قسم کا دعویٰ قابل قبول نہیں ہو گا۔ جیسا کہ امام
ذہبیa نے اس کے متعلق
تفصیل لکھی ہے۔ (میزان الاعتدال: ج۲‘ ص ۴۵)
یہ فتویٰ پڑھیں: کسی دوسرے سے استخارہ کروانا
اب ہم اس دعویٰ کا جائزہ لیتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰu صحابی ہیں‘ اس میں کوئی شک نہیں
کہ سیدنا عیسیٰu نے حقیقی زندگی
میں معراج کی رات‘ رسول اللہe سے ملاقات کی
ہے لیکن معروف معنوں میں آپ کی رسالت کا اقرار‘ ان سے ثابت نہیں اور نہ ہی رسول
اللہe نے انہیں صحابی
قرار دیا ہے۔ کسی صحابی یا تابعین سے کسی قسم کی صراحت نہیں کہ وہ صحابی ہیں بلکہ یہ
مسئلہ بہت صدیوں بعد اہل علم میں پیدا ہوا‘ پھر اس کی چنداں ضرورت بھی نہیں کیونکہ
صحابی تسلیم کرنے سے ان کے مقام اور مرتبے میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس قسم
کی بحث میں پڑنا محض تکلف ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment