باپ کی خرید کردہ زمین میں
وراثت
O ہم چار بھائی ہیں‘
ہمارے باپ کی وراثتی زمین ۱۶ ایکڑ ۴ کنال ہے۔ جبکہ
انہوں نے ۳ ایکڑ ۴ کنال بعد میں
خریدی‘ جب خرید کردہ زمین کا انتقال ہمارے باپ کے نام ہوا تو اس وقت ہمارا بڑا
بھائی والد سے الگ رہتا تھا۔ اب والد محترم کا انتقال ہو گیا ہے بڑا بھائی اس زمین
سے بھی حصہ مانگتا ہے جو اس کی علیحدگی کے بعد خریدی گئی۔ کیا شرعی طور پر اس کا
حصہ بنتا ہے؟!
یہ فتویٰ پڑھیں: بیوہ کے عقد ثانی کے بعد وراثت
P مرنے کے بعد جو
بھی چیز میت کی ملکیت میں تھی‘ وہ قابل تقسیم ہے۔ بشرطیکہ میت کے ذمے قرضے کو ادا
کر دیا جائے اور شرعی وصیت کا نفاذ ہو جائے۔ قرآن کریم میں ’’ما ترک‘‘ کو تقسیم
کرنے کا حکم ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز جو میت کی ملکیت ہو وہ اس کا ترکہ ہے اور اس میں
شرعی ورثاء کے مقررہ حصے جاری ہوں گے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ وراثتی ترکہ ہو یا خود
خرید کر کے اپنی ملکیت میں شامل کیا ہو۔
قرآن کریم میں ہے: ’’آدمیوں کے لیے حصہ ہے اس ترکہ میں جو اس کے والدین اور
قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لیے بھی اس میں حصہ ہے۔ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ‘
ہر ایک کا طے شدہ حصہ ہے۔‘‘ (النساء: ۷)
یہ ترکہ منقولہ جائیداد میں ہو یا غیر منقولہ تمام ورثاء میں شرعی حصوں کے
مطابق تقسیم کیا جائے گا۔ کسی بیٹے کا باپ کے ساتھ منسلک ہونا یا علیحدہ رہنا شرعی
حصوں کو تبدیل نہیں کرتا۔ لہٰذا وفات کے وقت جو زمین مرحوم کے نام تھی وہ تمام
ورثاء میں تقسیم کی جائے گی۔
یہ فتویٰ پڑھیں: گونگے بہرے کا وراثت سے حصہ
صورت مسئولہ میں ۱۶ ایکڑ ۴ کنال‘ وراثتی
زمین ہے اور ۳ ایکڑ ۴ کنال مرحوم نے
خود خریدی‘ کل رقبہ ۲۰ ایکڑ ہے جو تمام بیٹوں میں تقسیم ہو گا۔ اگر مرحوم کے چار
ہی بیٹے ہیں اور کوئی شرعی وارث نہیں تو اس رقبے کے چار حصے کر لیے جائیں۔ ایک حصہ
پانچ ایکڑ پر مشتمل ہو گا۔ ہر بیٹے کو پانچ پانچ ایکڑ ملیں گے۔ خواہ کوئی بیٹا باپ
کے ساتھ رہتا ہو یا اس سے الگ رہائش رکھے ہوئے ہو۔ سب میں وہ رقبہ برابر تقسیم ہو
گا۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment