بلا اجازت کسی مصنف کی کتاب چھاپنا
O ایک آدمی کوئی کتاب تصنیف کرتا ہے، کیا اس کتاب کو
کوئی ناشر اس کی اجازت کے بغیر طبع کر سکتا ہے یا نہیں؟ کیا وہ اس کتاب کی کسی ناشر
سے قیمت وصول کر سکتا ہے؟
P کسی شخص کو نئی کاوش پر جو حقوق حاصل ہوتے ہیں انہیں
حقوق ایجاد کہا جاتا ہے، دوسرا کوئی شخص اس کاوش کو اپنی طرف منسوب نہیں کر سکتا اور
نہ ہی اس کی نقل تیار کرنے کا مجاز ہے، اس کے مالی فوائد، اس موجد کو حاصل ہوں گے،
وہ خود اپنے حق ایجاد کو فروخت بھی کر سکتا ہے اور کسی کو ہبہ بھی دے سکتا ہے۔ کسی
ناشر کو اجازت نہیں کہ وہ اس کی کاوش کو طبع کرے،
حضرت رافع بن خدیجt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe سے
سوال ہوا ’’کونسی کمائی بہتر ہے؟‘‘ تو آپe نے فرمایا: ’’اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور اخلاص پر مبنی
ہر خرید و فروخت‘‘ (مسند امام احمد ص ۱۴۱ ج ۴)
اگر کوئی مصنف محنت سے کتاب لکھتا ہے تو وہ اس کے ذہن اور ہاتھوں
کی کمائی ہے، اور وہ اس کا مالک ہے، اس میں کسی دوسرے کو تصرف کا حق نہیں ہے، وہ اسے
فروخت کرنے، ہبہ دینے یا وقف کرنے کا مجاز ہے۔ کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ اس قسم کے حقوق
اپنے لیے محفوظ کرنا کتمان علم ہے جس کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ لہٰذا ہر ناشر کو اس
کے طبع کرنے کی اجازت ہونا چاہیے، نیز علم ایک عبادت ہے جس کا معاوضہ لینا جائز نہیں
ہے لیکن ہمیں اس سے اتفاق نہیں ہے کیونکہ مصنف اگر کتاب پر یہ عبارت لکھتا ہے: ’’حقوق
طبع محفوظ ہیں‘‘ تو اس کا مطلب علم کو چھپانا نہیں بلکہ اس کے ذریعے ناشر کو پابند
کیا جاتا ہے کہ وہ خود ہی اس کے مالی فوائد حاصل نہ کرے بلکہ اس سلسلہ میں مصنف کا
بھی خیال رکھے، یہ کتمان علم کی صورت نہیں ہے جو ناجائز ہو اور یہ کہنا کہ یہ طاعات
و عبادات پر معاوضہ لینا درست نہیں، یہ مفروضہ بھی محل نظر ہے کیونکہ رسول اللہe نے
چند عورتوں کی تعلیم بطور حق مہر مقرر کی ہے جو مالی معاوضہ کے قائمقام ہے پھر قرآنی
سورت پڑھ کر دم کرنا اور اس پر معاوضہ لینا بھی حدیث سے ثابت ہے، اس کے متعلق رسول
اللہe کا
ارشاد گرامی ہے:
’’سب سے زیادہ حقدار جس پر تم اجرت لو وہ اللہ کی کتاب ہے۔‘‘ (بخاری الطب: ۵۷۳۷)
ایک مصنف جب کوئی کتاب لکھتا ہے تو وہ راتوں بیدار رہتا ہے،
اپنے دماغ کو صرف کرتا ہے، محنت کرتا ہے، کیا اسے اپنی فکری اور عملی محنت کا معاوضہ
لینے کی اجازت نہیں؟
ہمارے نزدیک اس کی یہ محنت قابل انتفاع ہے اور وہ اس پر معاوضہ
لینے کا پورا پورا حق رکھتا ہے لیکن اس محنت کو اجازت کے بغیر چوری چھپے طبع کرنا،
اس کی محنت پر شبخون مارنا ہے، شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے، بہرحال ناشرین کو چاہیے
کہ وہ جب فکری کاوش سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو اس فائدہ میں مصنفین کو بھی شامل کریں،
یا پھر ان کے ساتھ کوئی معاملہ طے کر لیا جائے کہ وہ کسی ادارہ کیلئے کتاب لکھیں اور
انہیں طے شدہ معاوضہ یا حق الخدمت دے دیا جائے، اس کے بعد اس ادارہ کو اجازت ہے کہ
وہ جب چاہے جتنی چاہے کتب طبع کرے۔ (واللہ اعلم)
No comments:
Post a Comment