فجر کی پہلی اور دوسری اذان F10-13-02 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Tuesday, February 4, 2020

فجر کی پہلی اور دوسری اذان F10-13-02


فجر کی پہلی اور دوسری اذان

O حدیث میں ہے کہ رسول اللہe نے حضرت ابومحذورہt کو دوہری اذان کی تعلیم دی اور اس حدیث میں یہ وضاحت ہے کہ جب صبح کی پہلی اذان ہو تو اس وقت ’’الصلوٰۃ خیر من النوم، الصلوٰ خیر من النوم‘‘ کہا جائے، اس روایت کے مطابق ’الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ کے الفاظ فجر کی پہلی اذان میں کہنا چاہئیں جب کہ ہماری تمام مساجد میں ان الفاظ کو دوسری اذان میں کہا جاتا ہے، اس کے متعلق ہمیں صحیح موقف سے آگاہ کریں۔
P بلاشبہ سوال میں مذکورہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ متعدد کتب حدیث میں مروی ہے۔ (ابوداؤد، الصلوٰۃ: ۵۰۱، نسائی والاذان: ۶۳۴)
اس حدیث سے کچھ اہل علم نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ الصلوٰۃ خیر من النوم کے الفاظ فجر کی پہلی اذان میں کہے جائیں، دوسری اذان میں انہیں نہیں کہنا چاہیے، لیکن یہ استدلال کئی اعتبار سے محل نظر ہے۔
اولا:      حدیث میں اذان اول‘ اقامت کے اعتبار سے ہے کیونکہ شریعت میں تکبیر کو بھی اذان کہا گیا ہے جیسا کہ رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے: ’’ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔‘‘ (بخاری، الاذان: ۶۲۴)
            اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہر اذان اور اقامت کے درمیانی وقفے میں کم از کم دو رکعت پڑھنا مشروع ہے، اس میں اقامت کو بھی اذان سے تعبیر کیا گیا ہے، اس بناء پر اذان اول سے مراد وہ اذان ہے جو طلوع فجر کے بعد کہی جاتی ہے اور نماز فجر کے وقت کی علامت ہے، اس سے مراد اذانِ سحری نہیں جو سوتے ہوئوں کو بیدار کرنے یا تہجد پڑھنے والوں کو واپس آنے کیلئے کہی جاتی ہے۔ ثانیاً: مسجد نبوی میں دو مؤذن تھے، جن کی صراحت کتب حدیث میں موجود ہے، ایک حضرت بلالt اور دوسرے حضرت ابن ام مکتومt لیکن مکہ مکرمہ میں صرف ابومحذورہt ہی موذن تھے اور وہ صبح کی اذان دیتے تھے جو نماز فجر کیلئے ہوتی تھی، اور اسی اذان میں وہ الصلوٰۃ خیر من النوم کہا کرتے تھے۔
ثالثاً:     سیدنا حضرت انسt فرماتے ہیں: ’’سنت یہ ہے کہ جب موذن، فجر کی اذان میں حی علی الفلاح کہے تو الصلوٰۃ خیر من النوم دو مرتبہ کہے۔ (سنن دارقطنی ص ۲۴۳ ج ۱)
جب صحابی کسی حدیث کو سنت کے حوالے سے بیان کرتا ہے تو وہ حدیث مرفوع ہوتی ہے، اس موقف کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت نعیم بن نحام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک صبح سخت ٹھنڈک میں اپنی بیوی کے ساتھ اس کی چادر میں لیٹا ہوا تھا کہ رسول اللہe کے موذن نے نماز صبح کیلئے اذان دینا شروع کر دی۔ جب میں نے اذان سنی تو دل میں کہا کاش! موذن یہ کلمات کہہ دے ’’اور جو بیٹھا رہے اس پر کوئی حرج نہیں‘‘ وہ فرماتے ہیں کہ جب موذن نے الصلوٰۃ خیر من النوم کہا تو اس کے بعد یہ الفاظ بھی کہے اور جو بیٹھا رہے اس پر کوئی حرج نہیں۔ (بیہقی ص ۴۲۳ ج ۱)
اس حدیث میں صراحت ہے کہ موذن نے الصلوٰۃ خیر من النوم کے الفاظ نماز فجر کی اذان میں کہے تھے اگر الصلوٰۃ خیر من النوم کے الفاظ طلوع فجر سے پہلے کی اذان میں ہوتے تو حضرت نعیمt کو یہ تمنا کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی کہ کاش! موذن یہ الفاظ کہہ دے ’’اور جو بیٹھا رہے اس پر کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق الصلوٰۃ خیر من النوم کے الفاظ فجر کی پہلی اذان میں نہیں جو طلوع فجر سے پہلے کہی جاتی ہے بلکہ فجر کی دوسری اذان میں کہے جائیں جو طلوع فجر کے بعد دی جاتی ہے اور جو نماز فجر کے وقت کیلئے ایک علامت کی حیثیت رکھتی ہے۔ (واللہ اعلم)


No comments:

Post a Comment

Pages