اللہ تعالیٰ کیلئے لفظِ ’قدیم‘ کا استعمال F20-12-01 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Monday, April 6, 2020

اللہ تعالیٰ کیلئے لفظِ ’قدیم‘ کا استعمال F20-12-01


اللہ تعالیٰ کیلئے لفظِ ’قدیم‘ کا استعمال

O ہمارے ہاں اکثر اہل علم ذات باری تعالیٰ کے لیے لفظ ’القدیم‘ استعمال کرتے ہیں۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟ کیا کتاب وسنت میں اللہ تعالیٰ کو لفظ القدیم سے متصف کیا گیا ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ قدیم استعمال کیا جا سکتا ہے۔
P اللہ رب العزت ہمارا خالق ومالک ہے۔ اس کی جتنی بھی معرفت حاصل ہو گی‘ ہمارے ایمان میں اتنی ہی تازگی آئے گی۔ اللہ تعالیٰ کا مستند تعارف وہی ہو سکتا ہے جو اس نے خود قرآن مجید میں کروایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بعد اللہ کو سب سے زیادہ جاننے والے ہمارے رسول محمد e ہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’میں اللہ تعالیٰ کو تم سب سے زیادہ جاننے والا ہوں اور مجھ میں اللہ تعالیٰ کا ڈر تم سب سے زیادہ ہے۔‘‘ (بخاری‘ الادب: ۶۱۰۱)
اس کو پڑھیں:   قطب یا ابدال کیا ہیں؟!
رسول اللہe نے اپنے رب کا تعارف احادیث کے ذریعے کرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تعارف کے بعد رسول اللہe کا تعارف انتہائی مستند ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا وہ تعارف بھی استناد کا درجہ رکھتا ہے جو اس امت کے سلف صالحین نے کرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تعارف کا بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ کے نام اور اس کی صفات ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ کے اچھے نام ہیں‘ تم انہی ناموں سے اسے پکارا کرو اور انہیں چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں الحاد اور کج روی کرتے ہیں۔‘‘ (الاعراف: ۱۸۰)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے اسی نام کا اعتبار کیا جائے گا جو اس نے قرآن مجید میں ذکر کیا ہے۔ یا پھر رسول اللہe نے احادیث کے ذریعے اس کی نشاندہی کی ہے۔ رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے: ’’اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں یعنی سو سے ایک کم۔ جو کوئی انہیں یاد کرے وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘ (بخاری‘ التوحید: ۷۳۹۲)
احادیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے نام ہیں جو اس نے اپنی مخلوق کو سکھائے ہیں اور کچھ نام ایسے ہیں جنہیں اپنے پاس علم غیب میں رکھا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’اے اللہ! میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں جو تو نے اپنے لیے رکھا ہے یا وہ اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے یا اسے تو نے اپنی کتاب میں اتارا ہے یا اسے اپنے پاس علم غیب میں ہی رکھ لیا ہے۔‘‘ (مسند امام احمد: ج۱‘ ص ۳۹۱)
اس کو پڑھیں:   عورت کا ظِہار
یہ وہی نام ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان کر دیا ہے یا پھر رسول اللہe نے انہیں اللہ کے لیے ثابت کیا ہے۔ یہ نام اللہ تعالیٰ کی شان کے شایاں‘ تکییف وتمثیل اور تحریف وتعطیل کے بغیر ثابت ہیں۔ ان کے متعلق اپنی طرف سے کوئی تاویل کرنے کی بجائے انہیں مبنی بر حقیقت تسلیم کیا جائے‘ ان میں اللہ‘ اس باری تعالیٰ کا ذاتی نام ہے اور باقی نام صفات ہیں جو اس کی صفات پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ کچھ لوگوں نے اپنی عقل ناقص کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کا عجیب وغریب تعارف کرایا ہے۔ ان ناموں میں سے ایک نام ’’القدیم‘‘ بھی بیان کیا جاتا ہے‘ حالانکہ یہ نام نہ تو اللہ کی کتاب میں آیا ہے اور نہ ہی رسول اللہe نے اس کی نشاندہی کی ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے آپ کو الاول اور الآخر فرمایا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ اپنے اسماء حسنیٰ اور صفات علیا سمیت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ وہ اول ہے۔ اس سے پہلے کوئی چیز نہیں‘ وہ آخر ہے اس کے بعد کوئی چیز نہیں۔ لیکن متکلمین نے اللہ تعالیٰ کے لیے جو ’’القدیم‘‘ نام متعارف کرایا ہے یہ کتاب وسنت سے ثابت نہیں ہے۔ پھر اس معنی وسعت بھی نہیں جو اللہ تعالیٰ کے نام ’’الاول‘‘ میں پائی جاتی ہے۔ اگرچہ متکلمین ’’القدیم‘‘ کو ’’الاول‘‘ کے معنی میں ہی استعمال کرتے ہیں لیکن لغوی اعتبار سے یہ اس معنوی وسعت کا متحمل نہیں جو الاول میں پائی جاتی ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’الاول‘‘ کے ہوتے ہوئے اس نام کی قطعا کوئی ضرورت نہیں۔ بہرحال متکلمین نے اس ’’القدیم‘‘ کی آڑ میں یہ مغالطہ دیا ہے کہ ’’چونکہ اللہ تعالیٰ قدیم ہے لہٰذا وہ ہر قسم کی جدت سے پاک ہے۔ اس کی ذات میں کبھی کسی قسم کا تغیر وتبدل نہیں آتا۔ نہ وہ ساکن ہے نہ متحرک‘ کیونکہ حرکات وسکنات سے جدت آتی ہے۔ نہ وہ سنتا ہے کیونکہ سننے والا نئی نئی آوازیں سنتا ہے اور نہ وہ دیکھتا ہے کیونکہ دیکھنے والا نئی نئی چیزیں دیکھتا ہے۔‘‘ … کیا اس عجیب وغریب فلسفہ کو مانا جائے یا اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو جو اس نے خود بیان کی ہیں کہ وہ زندہ جاوید ہستی ہے۔ وہ سب کچھ سنتا اور سب کچھ دیکھتا ہے۔ اس کی شان یہ ہے کہ جب کسی چیز کا ارادہ فرماتا ہے تو صرف ’’کن‘‘ کہتا ہے تو وہ چیز اس کے حسب منشا وجود میں آجاتی ہے۔ بہرحال القدیم اللہ تعالیٰ کا نام نہیں۔


No comments:

Post a Comment

Pages