پلاٹ کی ملکیت کا تنازعہ F10-13-03 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Friday, February 7, 2020

پلاٹ کی ملکیت کا تنازعہ F10-13-03


پلاٹ کی ملکیت کا تنازعہ

O میرے بھائی کے ساتھ ہمارے علاقہ سے پٹواری کا لڑکا پڑھتا تھا، اس نے اپنے والد سے سفارش کی کہ انہیں رہائش کیلئے ایک پلاٹ دے دیا جائے، اس طرح میرے بھائی کی سفارش سے ایک پلاٹ رہائش کیلئے مل گیا اور ہمارے والد گرامی کے نام ہو گیا، ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ ہمارے وہ بھائی فوت ہو چکے ہیں، اس کی اولاد کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ پلاٹ ہمارے باپ کی محنت اور کوشش کا ثمرہ ہے لہٰذا ہم اس کے حقدار ہیں، واضح رہے کہ جب پلاٹ ہمارے باپ کے نام ہوا تھا اس وقت ہمارے بھائی کی شادی نہیں ہوئی تھی، اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی فرمائیں۔
P والد کی زندگی میں اس کے چھوٹے بڑے لڑکے جو کمائی کرتے ہیں وہ باپ کی ہی شمار ہوتی ہے ہاں اگر کسی لڑکے کی شادی ہو جائے اور وہ اپنے بال بچوں کو الگ رکھتا ہو اور علیحدہ طور پر کھاتا پیتا ہو تو اس صورت میں اس کی کمائی اپنی شمار ہوگی، اگر شادی سے پہلے اپنے باپ کے ہمراہ جو کمائی کرتا ہے تو وہ سب باپ کیلئے ہوگا اور اس کی ملکیت شمار کیا جائے گا، صورت مسئولہ میں بھائی کے بچوں کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ یہ پلاٹ ہمارے باپ کی سفارش سے حاصل ہوا تھا، یہ ہمارا ہے اور ہم ہی اس کے حقدار ہیں، ایک حدیث میں اس امر کی صراحت ہے: ’’تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے۔‘‘ (ابوداؤد، البیوع: ۳۳۵۴)
اس حدیث کے پیش نظر بچوں کی کمائی شرعی اور معاشرتی طور پر باپ کی شمار ہوگی، اگر اس کی بیوی زندہ نہیں ہے تو باپ کی جائیداد کو آٹھ حصوں میں تقسیم کر دیا جائے ان میں دو، دو حصے ہر لڑکے کو اور ایک ایک حصہ لڑکیوں کیلئے ہوگا، اپنے دادا کی جائیداد سے اس کے پوتے اور پوتیاں محروم ہوں گے جب کہ مرحوم کی حقیقی اولاد موجود ہے، ہمارے رجحان کے مطابق اس طرح کے معاملات کو وجہ نزاع نہ بنایا جائے بلکہ افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیا جائے۔ بچوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے انہیں کچھ نہ کچھ ضرور دیا جائے تا کہ یتیم بچے کسم پرسی کا شکار نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ (واللہ اعلم)


No comments:

Post a Comment

Pages