شرعی وارث کے حق میں وصیت؟ F10-14-06 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Friday, February 7, 2020

شرعی وارث کے حق میں وصیت؟ F10-14-06


شرعی وارث کے حق میں وصیت؟

O میرے والد نے وصیت کی ہے کہ میرے مرنے کے بعد میری دوکان بڑے بیٹے کو دے دی جائے اور باقی جائیداد تقسیم کرتے وقت بھی اسے حصہ دیا جائے جب کہ اس کی اولاد اور بھی ہے۔ اس وصیت کی شرعی حیثیت کیا ہے‘ قرآن و حدیث کے مطابق فتویٰ درکار ہے۔
P اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مرنے والے کی جائیداد تقسیم کرنے کا اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’اللہ تمہیں‘ تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کرتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔‘‘ (النساء: ۱۱)
اس آیت کے پیش نظر اولاد‘ اپنے باپ کی شرعی وارث ہے اور جو شرعی وارث ہوتا ہے اس کیلئے وصیت ناجائز ہے۔ رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے‘ اس بناء پر وارث کیلئے وصیت نہیں ہے۔ (ابوداؤد، الوصایا: ۲۸۷۰)
اس حدیث کی روشنی میں بڑے بیٹے کے لئے باپ کی وصیت ناجائز اور باطل ہے‘ اس کا نافذ کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’جو شخص وصیت کرنے والے کی طرف سے طرفداری یا حق تلفی کا اندیشہ محسوس کرے اور وہ اصلاح کرا دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘ (البقرہ: ۱۸۲)
اس آیت کے پیش نظر اس غلط وصیت کی اصلاح ضروری ہے کیونکہ اس میں دوسرے بچوں کی حق تلفی کی گئی ہے۔ اگر باقی اولاد خوشی سے اس وصیت کو مان لیں اور اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں تو اس وصیت پر عمل کیا جا سکتا ہے لیکن اگر شرعی ورثاء اس وصیت کو نہ مانیں اور دل میں گھٹن محسوس کریں تو وصیت پر عمل کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصول پر عمل کرنا ہو گا وہ یہ کہ وفات کے بعد اولاد میں جائیداد اس طرح تقسیم ہو کہ ایک بیٹے کو بیٹی کے مقابلہ میں دو گنا حصہ دیا جائے‘ آباء و اجداد کو چاہیے کہ وہ اپنے ایک بیٹے کی طرفداری کرتے ہوئے اپنی عاقبت کو خراب نہ کریں۔ (واللہ اعلم)


No comments:

Post a Comment

Pages