نام رکھنے کے متعلق شرعی ہدایات F20-08-03 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Friday, February 28, 2020

نام رکھنے کے متعلق شرعی ہدایات F20-08-03


نام رکھنے کے متعلق شرعی ہدایات

O ہمارے پڑوس میں بچوں کے نام بسم اللہ‘ الحمد للہ اور سبحان اللہ ہیں‘ ہم نے پہلی دفعہ یہ نام سنے ہیں‘ ایسے ناموں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا اس طرح کے دیگر قرآنی نام رکھے جا سکتے ہیں؟ قرآن وحدیث میں بچوں کے نام رکھنے کے متعلق کیا شرعی ہدایات ہیں۔
P اولاد‘ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ اس کے ہمارے ذمے کئی ایک حقوق ہیں‘ ان میں سے ایک حق یہ ہے کہ پیدا ہونے کی ساتویں دن اس کا نام رکھا جائے۔ اگرچہ پہلے دن بھی نام رکھا جا سکتا ہے تا ہم بہتر اور افضل یہ ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کے موقع پر بچے کا نام رکھا جائے۔ نام کا اپنے مسمی کے ساتھ ایک خاص ربط وتعلق ہوتا ہے اور اچھے ناموں کے اچھے اثرات بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے رسول اللہe نے اچھے نام رکھنے کی تاکید فرمائی ہے اور برے ناموں سے منع فرمایا ہے‘ بلکہ برے ناموں کو بدل کر اچھی صفات کے حامل نام رکھنے پر زور دیا ہے۔ رسول اللہe کا فرمان ہے: ’’قیامت کے دن تم سب کو تمہارے نام اور تمہارے باپ کے نام سے پکارا جائے گا۔ اس بناء پر تم اپنے اچھے نام تجویز کیا کرو۔‘‘ (ابوداؤد‘ الادب: ۴۹۴۸)
ذیل میں ہم اچھے ناموں کے متعلق چند ایک اصول ذکر کرتے ہیں:
\       ایسے نام تجویز کیے جائیں جن میں اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبدیت کا اظہار ہو‘ اس بناء پر اللہ تعالیٰ کو دو نام عبداللہ اور عبدالرحمن بہت پسند ہیں۔ رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے: ’’تمہارے ناموں میں سے اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔‘‘ (مسلم‘ الادب: ۵۵۸۷)
            قرآن کریم میں عبد کی نسبت اللہ اور رحمن کی طرف موجود ہے اور ایسے ناموں میں اللہ کی لازمی صفت ’’معبود‘‘ اور بندے کی لازمی صفت ’’عبد‘‘ کا اظہار ہے۔
\       حضرات انبیاء o کے نام پر نام رکھنا‘ رسول اللہe کا ارشاد ہے: ’’تم انبیاء کرام کے ناموں پر نام رکھو۔‘‘ (ابوداؤد‘ الادب: ۴۹۵۰)
            رسول اللہe کے ہاں جب بیٹا پیدا ہوا تو آپe نے سیدنا ابراہیمu کے نام پر اس کا نام ابراہیم رکھا اور حضرت عبداللہ بن سلام t کے بیٹے کا نام یوسف رکھا تھا۔ اس لیے انبیاءo کے ناموں پر اپنے بچوں کے نام رکھے جائیں تا کہ ان حضرات کی یاد تازہ رہے۔
\       نیک اور اچھے کردار کے حامل حضرات کے ناموں پر نام رکھے جائیں جیسا کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہt جب نجران گئے تو عیسائیوں نے پوچھا کہ تمہارے قرآن میں سیدہ مریم کو سیدنا ہارون کی بہن کہا گیا ہے حالانکہ حضرت ہارون بہت پہلے فوت ہو چکے تھے۔ جب انہوں نے رسول اللہe سے یہ تذکرہ کیا تو آپe نے فرمایا: ’’وہ لوگ اپنے انبیاء اور اپنے پہلے لوگوں کے ناموں پر نام رکھتے تھے۔‘‘ (مسلم‘ الادب: ۲۱۳۵)
            اس بناء پر صحابہ کرام]‘ تابعینS‘ تبع تابعینS محدثین کرام اور فقہاء عظامS کے ناموں پر نام رکھے جائیں تا کہ ان حضرات کے کارنامے اور واقعات محفوظ رہیں۔
\       ایسا نام رکھا جائے جس کا معنی اور مفہوم اچھا ہو‘ جیسا کہ صلح حدیبیہ کی شرائط طے کرتے وقت جب سہیل بن عمروt بطور نمائندہ آئے تو رسول اللہe نے فرمایا: ’’اب تمہارے لیے تمہارا معاملہ آسان ہو گیا ہے۔‘‘ (بخاری‘ الشروط: ۲۷۳۱)
رسول اللہe نے سہیل کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا اور اس سے نیک فال لی۔ کچھ ایسے نام بھی ہیں جنہیں شریعت نے پسند نہیں فرمایا: ان کے اصول حسب ذیل ہیں:
\       توحید کے منافی نام جیسے غلام محمد‘ غلام مہدی اور کنیز فاطمہ۔
\       کسی پیرکی طرف منسوب نام مثلاً پیر بخش‘ غوش بخش‘ غلام فرید اور پیراں دتہ وغیرہ۔
\       رسول اللہe کے مخصوص نام مثلاً سید الناس‘ سید ولد آدم‘ سید الکل۔
\       جن ناموں میں نافرمانی اور اکھڑ پن کا اظہار ہو مثلاً عاصیہ اور حزن وغیرہ۔
\       کافر اور جابر حکمرانوں کے نام جیسے قیصر‘ ہرقل‘ فرعون‘ پرویز۔
\       قرآنی سورتوں کے نام پر نام رکھنا جیسا طٰہٰ‘ یٰسین‘ حم وغیرہ
ناموں کو بگاڑنا بھی درست نہیں اور اگر کوئی غلط نام ہے تو اسے بدل لینا چاہیے۔ ہمارے ہاں محض انفرادیت قائم رکھنے کے لیے کچھ نام رکھے جاتے ہیں جن کا کوئی مفہوم نہیں ہوتا۔
صورت مسئولہ میں بسم اللہ‘ الحمد للہ اور سبحان اللہ نام رکھنا درست نہیں‘ انہیں بدل لینا چاہیے۔ واللہ اعلم!


No comments:

Post a Comment

Pages