بیوی کو مارنا پیٹنا
O میرے شوہر نماز کے پابند اور دین سے گہرا شغف رکھتے
ہیں لیکن اس کی طبیعت میں کچھ تیزی ہے۔ جب غصہ میں آتے ہیں تو مار پیٹ تک نوبت پہنچ
جاتی ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کریں کہ خاوند کو کس حد تک اپنی بیوی کو مارنے
کی اجازت ہے؟
P قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے خاوند کو حکم دیا ہے کہ
وہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرے اور حسن معاشرت اختیار کرے‘ اگر قلبی محبت ختم بھی
ہو جائے تو بھی بدسلوکی کرنے کی اجازت نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور ان عورتوں
کے ساتھ اچھے انداز میں زندگی بسر کرو‘ گو تم انہیں ناپسند ہی کرو۔ ممکن ہے کہ تم کسی
چیز کو برا خیال کرو لیکن اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی پیدا کر دے۔‘‘ (النساء:
۱۹)
قرآن مجید نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ عورت کے اپنے خاوند پر کچھ
حقوق ہیں جس طرح اس کی بیوی پر اس کے کچھ حقوق ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور عورتوں
کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں۔ وہ بھی اچھائی کے ساتھ۔ ہاں مردوں کو
عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔‘‘ (البقرہ: ۲۲۸)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو عورت پر کچھ زیادہ
حقوق ہیں جو کہ خرچہ وغیرہ میں اس کی ذمے داری کے بدلے میں ہیں۔
رسول اللہe نے
بھی خاوند کو اپنی بیوی کے بارے میں احسان‘ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت فرمائی ہے بلکہ
آپe نے
تو لوگوں میں سب سے بہتر اس شخص کو قرار دیا ہے جو اپنی بیوی اور دیگر اہل وعیال کے
ساتھ حسن سلوک کرتا ہے۔ رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے: ’’تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے
گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہے اور میں خود اپنے اہل خانہ کے لیے تم سب سے زیادہ بہتر
ہوں۔‘‘ (ترمذی‘ المناقب: ۳۸۹۵)
رسول اللہe نے
اس سلسلہ میں ہماری مزید رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم عورتوں کے متعلق اللہ سے ڈرو‘
بلاشبہ تم نے انہیں اللہ کی امان سے حاصل کیا ہے۔ ان کی عزت وناموس کو اللہ کے کلمے
سے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے گھر میں
داخل نہ ہو‘ اگر وہ سرتابی کریں تو تم انہیں مار کی سزا دو جو زخمی نہ کرے اور شدید
تکلیف دہ نہ ہو۔ ان کا تم پر حق یہ ہے کہ تم انہیں اچھے اور احسن انداز سے نان ونفقہ
اور رہائش دو۔‘‘ (مسلم‘ الحج: ۱۲۱۸)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر بیوی‘ خاوند کی نافرمانی کرے تو
اسے ہلکی پھلکی مار دی جا سکتی ہے۔ یہ اجازت بھی اس طرح ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ
ہے: ’’جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو‘ انہیں نصیحت کرو اور انہیں بستروں
سے الگ کر دو‘ نیز انہیں مار کی سزا دو‘ پھر وہ اگر اطاعت گذاری کریں تو ان کے خلاف
کوئی اور راستہ تلاش نہ کرو۔‘‘ (النساء: ۳۴)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب عورت اپنے خاوند کی نافرمانی
کرے اور سرکشی پر اتر آئے اور اس کی بات تسلیم نہ کرے تو اس کے ساتھ تین طریقے استعمال
کرنے کی اجازت ہے:
\ سب سے پہلے اسے
وعظ ونصیحت کرے۔
\ اگر باز نہ آئے تو بستر سے الگ کر دے۔
\ آخر میں ہے کہ
اسے مارے‘ لیکن اس مار میں شرط ہے کہ وہ شدید قسم کی نہ ہو جس سے زخم اور ہڈی ٹوٹنے
کا اندیشہ ہو۔
یہ بھی واضح رہے کہ اس مار سے عورت کو اذیت دینا یا اس کی توہین
کرنا مقصود نہیں بلکہ اسے شعور دلانا مقصود ہے کہ وہ اپنے خاوند کے حق میں کوتاہی کر
رہی ہے اور اس کے خاوند کو اس کی اصلاح کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
ہم اس حوالے سے سائلہ کو بھی کہیں گے کہ وہ اپنے طرز عمل پر
نظر ثانی کرے کہ کہاں کہاں اس سے کوتاہی ہو رہی ہے۔ آخر خاوند جو تقویٰ شعار اور پرہیزگار
ہے وہ مارپیٹ پر کیوں اتر آتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس پر معصیت کی وجہ سے یہ مصیبت مسلط
کر دی گئی ہو‘ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے
ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ بہت سی باتوں سے درگذر فرما دیتا ہے۔‘‘
(الشوریٰ: ۳۰)
اللہ تعالیٰ میاں بیوی دونوں کو حسن سلوک سے حیات مستعار کے
دن پورے کرنے کی توفیق دے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment