حج مبرور کیا ہوتا ہے؟!
O احادیث میں حج مبرور کی بہت فضیلت آئی ہے‘ حج مبرور
کیا ہوتا ہے اور وہ کونسے کام ہیں جنہیں بجا لانے سے انسان کا حج‘ حج مبرور بن جاتا
ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کر دیں۔
P اس میں کوئی شک نہیں کہ احادیث میں حج مبرور کی بہت
فضیلت آئی ہے‘ جیسا کہ رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے: ’’حج مبرور کا بدلہ جنت کے علاوہ
اور کچھ نہیں۔‘‘ (بخاری‘الحج: ۱۷۷۳)
حج مبرور کے لیے ضروری ہے کہ وہ رسول اللہe کے
بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق کیا جائے اور دوران حج ہر اس کام سے اجتناب کیا جائے جس
کے ارتکاب سے حج خراب ہو سکتا ہے۔ بہت سے حجاج کرام‘ احرام باندھنے کے بعد اس بات کا
خیال نہیں رکھتے کہ وہ ایسی عبادت سرانجام دے رہے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے حرام کاموں
کے ارتکاب پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ان میں حج سے پہلے اور حج کے بعد کوئی تبدیلی
نظر نہیں آتی جبکہ حج مبرور کا مطلب یہ ہے کہ ان میں واضح طور پر تبدیلی آنی چاہیے۔
اچھے کاموں کی طرف رغبت اور برے کاموں سے نفرت ہونی چاہیے۔ حاجی کو چاہیے کہ وہ درج
ذیل باتوں کا خاص طور پر اہتمام کرے:
\ توحید … اس کا مطلب یہ
ہے کہ ہماری ہر قسم کی عبادت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو‘ اس میں غیر اللہ کو شریک نہ
کیا جائے‘ جب تلبیہ کہا جاتا ہے تو اس میں اسی سبق کو بار بار دہرایا جاتا ہے‘ یعنی
لبیک کا مفہوم حجاج کرام کے افعال واقوال میں واضح ہونا چاہیے بلکہ اس کی پوری زندگی
درج ذیل آیت کریمہ کی آئینہ دار ہو: ’’کہہ دیجیے! میری نماز‘ میرے تمام مناسک عبودیت‘
میری زندگی اور میری موت صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘ (الانعام: ۱۶۲)
\ نماز کا اہتمام … انسان جب دائرہ
اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اللہ کی طرف سے پہلا فرض یہ ہے کہ وہ نماز پنجگانہ کا اہتمام
کرے۔ نماز دین کا ستون‘ نیز کفر واسلام کے درمیان فرق کرنے والی ہے۔ قیامت کے دن بھی
حقوق اللہ میں سے اولین حساب‘ نماز کا ہو گا۔ لہٰذا اسے پابندی سے ادا کرنے کی عادت
ڈالی جائے۔ ارشادی باری تعالیٰ ہے: ’’میرے ان بندوں کو جو ایمان لاتے ہیں کہہ دو کہ
وہ نماز قائم کریں۔‘‘ (ابراہیم: ۳۱)
رسول اللہe سیدنا
بلالt سے
فرماتے تھے: ’’اے بلال! ہمیں نماز کے ساتھ راحت پہنچانے کا اہتمام کرو۔‘‘ (ابوداود‘
الصلوٰۃ: ۹۸۵)
نیز آپe کا
فرمان ہے کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں لکھی گئی ہے۔ (مسند امام احمد: ج۳‘ ص ۲۸۵)
\ رزق حلال کی پابندی … حاجی کو چاہیے
کہ زندگی میں رزق حلال کا اہتمام کرے کیونکہ عبادات کی قبولیت کا دارومدار رزق حلال
پر ہے۔ اللہ تعالیٰ صدقات وخیرات بھی وہی قبول کرتا ہے جو رزق حلال سے کیے جائیں‘ جیسا
کہ حدیث میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ خود بھی پاک ہے اور وہ پاک مال کو ہی قبول کرتا ہے۔‘‘
(مسلم: ۱۰۱۵)
اللہ تعالیٰ نے حضرات انبیاءo‘ اہل ایمان اور عام لوگوں کو الگ الگ
رزق حلال استعمال کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی صراحت ہے۔
\ حسن اخلاق … دوران حج اور
اس کے بعد‘ حسن اخلاق کو اختیار کیا جائے‘ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ انسان ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں۔‘‘ (بخاری‘ الادب: ۳۵۵۹)
حسن اخلاق
کا دائرہ بہت وسیع ہے‘ اس میں دیانت وامانت‘ عدل وانصاف‘ تواضع وانکساری حق گوئی وثابت
قدمی‘ ایثار وقربانی‘ ہمدردی ومہربانی‘ قناعت وسادگی‘ خلوص ومحبتِ‘ شرم وحیاء‘ شرافت
وپاکیزگی‘ خوش کلامی اور بردباری سب اس میں شامل ہیں۔
\ صبر واستقامت کا مظاہرہ … دوران حج ہر قسم
کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے‘ ہمیں چاہیے کہ صبر وتحمل سے کام لیں‘ اللہ کے ہاں اس پر
اجر وثواب کی امید رکھیں‘ لڑائی‘ جنگ وجدال سے اجتناب کرنا چاہیے۔ رسول e نے
حج کو ایسا جہاد قرار دیا ہے جس میں قتال نہیں ہوتا۔ (مسند امام احمد: ج۶‘ ص ۱۶۵)
لہٰذا ہمیں دوران حج کسی موقع پربھی صبر وتحمل کا دامن نہیں
چھوڑنا چاہیے۔
No comments:
Post a Comment