گری پڑی چیز ملے تو کیا کریں
O میں ٹرین میں سفر کر رہا تھا کہ میرے ساتھ بیٹھنے والا
مسافر اتر گیا‘ وہ اپنا بیگ بھول کر وہاں چھوڑ گیا۔ اس میں کچھ نقدی اور قیمتی اشیاء
ہیں۔ اس بیگ کے متعلق شرعی طور پر کیا حکم ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔
P گری پڑی چیز کو لغوی طور پر ’’لقطہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ شرعی
اصطلاح میں لقطہ سے مراد ایسی گمشدہ چیز ہے جو راستے میں گری پڑی ملے یا ایسی چیز جس
کے مالک کا پتہ نہ ہو۔ اسلام نے گری پڑی اشیاء کی بڑی حفاظت کی ہے۔ ان کے اٹھانے والوں
کو ایسی صورت میں اٹھانے کی اجازت ہے کہ وہ اسے اصل مالک تک لے جانے کی کوشش کریں۔
انہیں ہضم کرنے کی نیت سے ہرگز ہرگز نہ اٹھایا جائے۔ اس کی اقسام حسب ذیل ہیں:
\ ایسی اشیاء جن
کا مالک آسانی سے مل سکتا ہے۔ مثلاً شناختی کارڈ‘ پاسپورٹ یا چیک اور ڈرافٹ وغیرہ یا
اس طرح کی دیگر اشیاء جن پر مالک کا نام اور پتہ درج ہوتا ہے۔
\ ایسی اشیاء جن
پر مالک کا نام تو نہیں ہوتا تا ہم ذرا سی کوشش کرنے سے مالک کا سراغ لگایا جا سکتا
ہے۔ مثلاً موبائل وغیرہ‘ اس کی سم سے اس کے مالک کا پتہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔
\ بعض گم شدہ اشیاء
ایسی ہوتی ہیں جن کے مالک کا کوئی اتا پتہ نہیں ہوتا۔ احادیث میں اس طرح کی اشیاء کے
متعلق رسول اللہe نے
کچھ ہدایات دی ہیں‘ محدثین کرام نے ایسی اشیاء سے متعلقہ ہدایات پر ’’لقطہ‘‘ کا عنوان
قائم کیا ہے۔ چونکہ ان قیمتی اشیاء کا کوئی نہ کوئی مالک ضرور ہوتا ہے اس لیے انہیں
ضائع نہیں کرنا چاہیے‘ بلکہ انہیں اٹھا کر پبلک مقامات پر ان کی تشہیر کی جائے۔ اس
کی مشروعیت پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ گم شدہ چیز کے متعلق رسول اللہe کی
اولین ہدایت یہ ہے کہ جو شخص کوئی گمشدہ چیز پائے تو وہ دو گواہ بنا لے اور اس کی حفاظت
کرے۔ اگر اس کا مالک آجائے تو اس سے نشانی طلب کرے اور اس کو اس کے حوالے کر دے۔اس
میں سے کچھ نہ چھپائے۔ کیونکہ وہی اس کا زیادہ حقدار ہے۔ اگر وہ نہ ملے تو یہ اللہ
کا مال ہے وہ جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (مسند امام
احمد: ج۴‘ ص ۲۶۶)
لیکن یہ اس کے پاس امانت ہو گی اور اس کا طلبگار عمر کے کسی
حصہ میں بھی آجائے تو وہ چیز اسے ادا کرنا ہو گی۔ (مسلم‘ اللقطہ: ۴۵۰۲)
اگر کوئی ایسی چیز ملتی ہے جس کے گم ہونے سے انسان پریشان نہیں
ہوتا یا وہ چیز اس قدر معمولی ہے کہ وہ اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا تو ایسی چیز اٹھا
کر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مثلاً چھڑی‘ رسی‘ پنسل وغیرہ۔ نیز ایسی اشیاء جو
کھانے پینے کے قابل ہوں اور جلد خراب ہونے والی ہوں تو انہیں اعلان کے بغیر کھایا پیا
جا سکتا ہے۔ گری پڑی قیمتی اشیاء کے متعلق اگرچہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ اسے اٹھانا
جائز نہیں کیونکہ یہ دوسرے کا مال ہے اور اس کی اجازت کے بغیر اٹھانے کی اجازت نہیں۔
کچھ حضرات کہتے ہیں کہ اٹھانا جائز ہے مگر نہ اٹھانا بہتر ہے۔ ممکن ہے کہ اس کا مالک
تلاش کرتے کرتے اس جگہ پہنچ جائے۔ لیکن عام فقہاء ومحدثین کا موقف ہے کہ گری پڑی چیز
کو چھوڑ دینے سے اس کا اٹھا لینا بہتر ہے کیونکہ گمشدہ مال بہرحال ضائع نہیں ہونا چاہیے
اور نہ ہی آسانی سے اسے ہضم کیا جا سکتا ہے۔ اسے اٹھا کر اس کی نشانی کو ذہن میں رکھے۔
مساجد‘ شارع عام‘ بازار اور دیگر پبلک مقامات پر اس کی تشہیر کی جائے۔ بالخصوص جہاں
سے وہ چیز ملی ہے اس کے آس پاس خوب اعلان کیا جائے۔ اس دوران اگر کوئی آجائے اور نشانی
بتا دے تو وہ چیز اس کے حوالے کر دی جائے۔ بصورت دیگر بطور امانت اس سے فائدہ اٹھایا
جا سکتا ہے۔ اس کے بعد جب کبھی اس کا مالک مل جائے تو اسے وہ چیز یا اس کی مثل ادا
کرنا ضروری ہے۔ اس پر مزید گواہوں کی ضرورت نہیں۔
صورت مسئولہ میں سائل کو ٹرین سے ایک بیگ ملا ہے۔ اسے کھول کر
اس میں موجود اشیاء کو ذہن میں رکھے۔ اگر کوئی ایسی چیز مل جائے جس سے مالک کا سراغ
لگایا جا سکتا ہے تو اسے تلاش کیا جائے۔ اگر مل جائے تو اس کی چیز اس کے حوالے کر دی
جائے۔ اگر نہ ملے تو اس کے نام صدقہ کر دیا جائے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اور اصل
مالک کو اس پر اجر عطا فرمائے گا۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment