کرونا وائرس اور مساجد میں نماز باجماعت F20-13-01 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Sunday, April 12, 2020

کرونا وائرس اور مساجد میں نماز باجماعت F20-13-01


کرونا وائرس اور مساجد میں نماز باجماعت

O کرونا وائرس نے عالمی سطح پر خوف وہراس پھیلا رکھا ہے‘ ہمارے کچھ مسلم ممالک بھی اس کی ہولناکی سے دو چار ہیں‘ مساجد میں ’’حی علی الصلوٰۃ‘‘ کی بجائے ’’نمازیں گھروں میں پڑھو‘‘ کی صدا بلند ہو رہی ہے۔ ایسے حالات میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
P عالم اسلامی اپنی تاریخ میں کئی ایک مرتبہ مختلف وبائی بیماریوں سے دو چار ہوا۔ صحابہ کرام] کا زمانہ طاعون اور کثرتِ اموات کے باوجود اسلاف نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا جو ہمارے بعض عرب ممالک میں دیکھا اور سنا جا رہا ہے۔ بلکہ ان کا تعامل‘ مساجد سے لگاؤ اور ان کے ساتھ تمسک تھا۔ اس سلسلہ میں شریعت کا کیا منہج ہے؟ اس کے متعلق ہمارے اہل حدیث حساس علماء نے ایک متفقہ اعلامیہ مرتب کیا ہے کہ کرونا وائرس اور نماز باجماعت ومساجد کے بارے میں احتیاط کی جائز اور ناجائز حدود کیا ہیں؟ اس پر راقم الحروف نے نظر ثانی کی ہے ہم اپنے احکام ومسائل کے کالم میں اسے شائع کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اس اعلامیہ کی تائید متعدد علمائے اہل حدیث نے کی ہے۔ اس کے دو حصے ہیں:
اس کو پڑھیں:    بیوی کو مارنا پیٹنا
حصہ اول: حکومتی اداروں اور مساجد کی انتظامیہ کے لیے:
حکومتی اداروں اور مساجد کی انتظامیہ کا فرض ہے کہ پریشانی کے اس ماحول میں:
\       مسلمانوں کا مورال بلند رکھیں‘ ایمان ویقین اور اللہ تعالیٰ پر توکل کا درس دیں‘ ذکر الٰہی اور انفرادی دعاؤں پر اپنی توجہ مرکوز کریں اور یہ سمجھیں کہ ایسی آزمائشیں ہمارے گناہوں کی وجہ سے آتی ہیں۔
\       مساجد کی صفائی‘ ستھرائی اور دیگر حفاظتی واحتیاطی تدابیر پر خصوصی توجہ دیں۔ جیسا کہ حدیث میں سیدہ عائشہr کا بیان ہے: ’’رسول اللہe نے محلے میں مسجدیں بنانے‘ انہیں پاک صاف رکھنے اور خوشبو سے معطر رکھنے کا حکم دیا۔‘‘ (ابوداؤد‘ الصلوٰۃ: ۴۵۵)
\       کسی بھی صورت میں اللہ کے بندوں پر اللہ کے گھروں کو بند کرنے کا نہ سوچیں جیسا کہ بعض عرب ممالک میں یہ غلطی سرزد ہو چکی ہے۔ یہ مساجد تو رحمت کے دروازے اور امیدوں کے مراکز ہیں۔ صحابہ کرام] اور تابعین عظام وغیرہم کے زمانہ میں طاعون اور کثرت اموات جیسے مصائب میں ان کا تعامل مساجد سے لگاؤ اور تمسک تھا نہ کہ انہیں بند کرنا‘ صحت مند افراد پر مساجد کے دروازے بند کرنا بدترین ظلم ہے جو قطعاً جائز نہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کے نام کا ذکر کیے جانے کو منع کرے اور ان کی ویرانی میں تگ ودو کرے۔‘‘ (البقرہ: ۱۱۴)
\       مساجد کو اپنی ملکیت نہ سمجھیں یہ خالصتاً اللہ کے گھر ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور یہ کہ مسجدیں (خاص) اللہ کی ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرو۔‘‘ (الجن: ۸۱)
\       فرض نمازوں اور نماز جمعہ کے علاوہ دیگر اوقات میں مقامی حالات کے مطابق امن عامہ اور صحت کے لیے مساجد کو بند کیا جا سکتا ہے اور اس کا جواز موجود ہے لیکن جبرا مساجد کو بالکل بند کروا دینا ناجائز اور حرام ہے۔
حصہ دوم:    عوام الناس کے لیے:
\       کورونا وائرس کے کنفرم مریض:
جو لوگ کرونا وائرس کے کنفرم مریض ہیں‘ ان کے لیے مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا جائز نہیں کیونکہ رسول اللہe کا فرمان ہے: ’’کوئی شخص اپنے بیمار اونٹوں کو کسی کے صحت مند اونٹوں میں بالکل نہ لے جائے۔‘‘ (بخاری‘ الطب: ۵۷۷۱)
جب صحت مند اونٹوں کی حفاظت کے پیش نظر بیمار اونٹوں کو ریوڑ میں لانا جائز نہیں تو انسانی جان کی حفاظت اس سے کہیں زیادہ محترم اور مقدم ہے۔ اس لیے وبائی امراض سے متأثر افراد نماز باجماعت میں شامل نہ ہوں۔ نیز آپe کا فرمان ہے: ’’جس نے اس درخت (لہسن) میں سے کھایا ہو‘ وہ شخص ہمارے پاس ہماری مسجد کے قریب نہ آئے اور لہسن کی بدبو سے ہمیں اذیت نہ پہنچائے۔‘‘ (مسلم‘ الطہارہ: ۵۶۵)
اس حدیث کے مطابق لہسن کی بدبو کی وجہ سے مسجد میں آنا منع ہے۔ جب تک منہ سے بدبو ختم نہ ہو‘ اس لیے جو لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں یا ان میں متاثر ہونے کی علامات پائی جاتی ہیں‘ انہیں مساجد میں آنے سے اجتناب کرنا چاہیے جب تک کہ ڈاکٹر حضرات انہیں کلیئر نہ کر دیں۔ کیونکہ وائرس کو پھیلانے کا نقصان بہرصورت لہسن کی بدبو سے کہیں بڑھ کر ہے۔
نیز ثقیف کے وفد میں کوڑھ کا ایک مریض بھی تھا‘ رسول اللہe نے اس کو پیغام بھیجا: ’’ہم نے (بالواسطہ) تمہاری بیعت لے لی ہے‘ اس لیے تم (اپنے گھر) لوٹ جاؤ۔‘‘ (مسلم‘ السلام: ۲۲۳۱)
\       کورونا وائرس کے مشتبہ مریض:
ایسے افراد جو کورونا وائرس کی علامات یا کسی سابقہ بیماری کی بناء پر خائف ہوں اور خطرہ محسوس کرتے ہوں کہ باجماعت نماز اور جمعہ میں حاضری سے مجھے نقصان ہو سکتا ہے یا میری وجہ سے کسی دوسرے کو تکلیف ہو سکتی ہے تو ایسے شخص کے لیے سیدنا ابن عباسw سے مروی درج ذیل حدیث کی بناء پر باجماعت نماز اور جمعہ میں حاضری سے رخصت ہے۔ رسول اللہe نے فرمایا: ’’نہ نقصان پہنچایا جائے اور نہ ہی خود نقصان اٹھایا جائے۔‘‘ (ابن ماجہ‘ الاحکام: ۲۳۴۱)
\       بچے‘ بوڑھے‘ عمومی مریض اور خواتین:
چھوٹے بچے‘ عمر رسیدہ اور ضعیف بزرگ نیز خواتین اور دیگر امراض میں مبتلا افراد کے لیے بھی مسجد میں حاضری سے رخصت ہے۔
اس کو پڑھیں:    سوگ کی پابندیاں
\       حکومتی ہدایات پر عمل:
حکومت اور بالخصوص محکمہ صحت کی طرف سے جاری کردہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا انسب ہے۔ لہٰذا حکومتی ہدایات کے مطابق‘ ان دنوں عوامی اجتماعات‘ محافل اور کانفرنسوں سے احتیاط کریں کیونکہ یہ سب نفلی کام ہیں‘ ان کو عارضی طور پر روکنے میں کوئی حرج نہیں۔

No comments:

Post a Comment

Pages