مسئلہ ’رَدّ‘ اور اس کی حیثیت
O وراثت
کے کچھ مسائل ہماری سمجھ سے بالا تر ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک آدمی فوت ہوتا ہے اور اس
کی صرف تین بیٹیاں ہیں تو قرآن کریم کی صراحت کے مطابق انہیں ۳/۲ ملتا ہے۔ اب جو
۳/۱ باقی ہے اس کا حقدار
کون ہے؟ جبکہ اس کا کوئی اور وارث نہیں۔
یہ فتویٰ پڑھیں: ماں کی جائیداد سے بیٹے کا حصہ
P علم
وراثت میں ایک بنیادی ہندسہ ہوتا ہے جسے اصل المسئلہ یا رأس المسئلہ کہا جاتا ہے۔
اسے بنیاد بنا کر حصے نکالے جاتے ہیں اور انہیں ورثاء پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ عام طور
پر وراثت کے مسائل تین طرح کے ہوتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
\ جب مقررہ حصے اہل
مسئلہ پر برابر ہوں تو اسے عادلہ کہتے ہیں۔ مثلاً ایک عورت فوت ہوئی اس کی ایک بہن
اور خاوند زندہ تھے تو مسئلہ دو سے بنتا ہے۔ ایک حصہ بہن کا اور ایک حصہ خاوند کا۔
اب اصل مسئلہ اور مقررہ حصے دونوں برابر ہیں۔
\ بعض اوقات مقررہ
حصے اہل مسئلہ سے بڑھ جاتے ہیں۔ اسے زائدہ کہتے ہیں۔ مثلاً ایک آدمی فوت ہوا‘ اس کی
والدہ‘ دو مادی بہنیں اور دو حقیقی بہنیں زندہ ہیں تو مسئلہ چھ سے بنتا ہے۔ والدہ کو
ایک حصہ‘ دو مادری بہنوں کے دو حصے اور دو حقیقی بہنوں کے چار حصے ہیں۔ جب حصوں کو
جمع کیا تو سات ہوئے جبکہ اصل مسئلہ چھ ہے۔ اب اصل مسئلہ چھوڑ کر حصوں کی تعداد کے
مطابق جائیداد تقسیم کر دی جاتی ہے۔
\ جب مقررہ حصے اصل
مسئلہ سے کم رہ جائیں تو اسے ناقصہ کہتے ہیں۔ مثلاً ایک آدمی‘ والدہ اور بیٹی چھوڑ
کی فوت ہوا تو اصل مسئلہ چھ ہو گا۔ والدہ کو ایک حصہ اور بیٹی کو تین حصے ملیں گے جب
ان حصوں کو جمع کیا تو چار ہوتے ہیں جو اصل مسئلہ چھ سے کم ہیں۔ اسے ردیہ بھی کہتے
ہیں۔ صورت مسئولہ کا تعلق بھی اس آخری مسئلہ سے ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ جو باقی بچتا
ہے وہ بھی اسی وارث کو مل جاتا ہے جس نے مقررہ حصہ لیا تھا۔ باقی ماندہ حصہ‘ اسے لوٹا
دینے کو رد کہتے ہیں‘ رد کے اعتبار سے ورثاء کی دو اقسام ہیں۔
\ کچھ ایسے ورثاء
ہیں‘ جن پر باقی ماندہ رد نہیں کیا جاتا اور وہ خاوند اور بیوی ہیں‘ انہیں ’’من لا
یرد‘‘ کہا جاتا ہے۔
\ کچھ ایسے وارث
ہیں جن پر باقی ماندہ لوٹا دیا جاتا ہے اور میاں بیوی کے علاوہ باقی ورثاء ہیں‘ انہیں
’’من یرد‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس کا طریق کار یہ ہوتا ہے کہ جن ورثاء پر باقی ماندہ رد کیا جاتا ہے اگر ایک ہی
جنس سے ہیں تو ان کی تعداد پر تقسیم کی بنیاد رکھی جاتی ہے جیسا کہ صورت مسئولہ میں
ہے کہ ایک آدمی فوت ہوا‘ پسماندگان میں صرف تین بیٹیاں ہیں۔ ان کا دو تہائی ہے یعنی
انہیں تین حصوں میں سے دو حصے ملتے ہیں۔ ایک باقی رہتا ہے۔
یہ فتویٰ پڑھیں: اولاد نہ ہونے کی صورت میں وراثت
اس کا حل یہ ہے کہ بیٹیوں کی تعداد کے مطابق جائیداد تقسیم کر دی جائے۔ یعنی تین
بیٹیاں ہیں اور جائیداد کے تین حصے کر کے ایک ایک حصہ ہر بیٹی کو دے دیا جائے اور اگر
باقی ماندہ حصہ لینے والے مختلف اجناس سے تعلق رکھتے ہیں تو ان کے حصوں کی تعداد کے
مطابق جائیداد تقسیم کر دی جائے۔ مثلاً ایک آدمی فوت ہوا‘ اس کی ایک بیٹی‘ ایک پوتی
اور والدہ زندہ تھیں تو بیٹی کو تین‘ پوتی کو ایک اور والدہ کو بھی ایک حصہ دیا جائے۔
یعنی جائیداد کے چھ حصے کرنے کی بجائے اس کے پانچ حصے کر کے اُسے تقسیم کر دیا جائے۔
واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment