شرعی احکام بدلنے کا اختیار F20-27-01 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Friday, November 27, 2020

شرعی احکام بدلنے کا اختیار F20-27-01

ھفت روزہ, ہفت روزہ, اھل حدیث, اہل حدیث, اھلحدیث, اہلحدیث, احکام ومسائل, شرعی احکام بدلنے کا اختیار,
 

شرعی احکام بدلنے کا اختیار

O میری رائس مل ہے جس میں چوتھا حصہ میرے بیٹے کا ہے۔ میرے شرعی ورثاء بیوی‘ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے‘ خاندان کے معززین کا فیصلہ ہے کہ میرے فوت ہونے کے بعد میرے تمام کاروبار کا مالک میرا بیٹا ہو گا۔ اس کے علاوہ تمام جائیداد کی شرعی تقسیم ہو گی‘ کیا یہ فیصلہ شرعا درست ہے؟!

یہ فتویٰ پڑھیں:                       مسئلہ رد اور اس کی حیثیت

P انسان مرنے کے بعد جو منقولہ‘ غیر منقولہ جائیداد چھوڑ جاتا ہے اسے شریعت کی اصطلاح میں ’’ترکہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں اس کے تمام شرعی ورثاء بقدر حصہ شریک ہوتے ہیں۔ زندگی میں نہ کوئی اپنے حصے کا مطالبہ کر سکتا ہے اور نہ ہی مرنے والا اپنی زندگی میں کسی کو اس کا حصہ دینے کا مجاز ہے۔ سربراہ خانہ کی وفات کے بعد جو ورثاء زندہ ہوں گے وہ اس ترکہ کے حقدار ہوں گے۔ مرحوم کی زندکی میں فوت ہونے والا کوئی رشتہ دار‘ ترکہ سے حصہ نہیں پائے گا بلکہ اسے محروم تصور کیا جائے۔ کسی بھی شخص کی زندگی میں اس کے ورثاء کا قطعی اور یقینی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس بات کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے کہ کس نے کب مرنا ہے۔ ترکہ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لیے بھی اس میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ اس میں سے ہر ایک کا ایک طے شدہ حصہ ہے۔‘‘ (النساء: ۷)

سائل کے بقول کاروبار میں چوتھا حصہ اس کے بیٹے کا ہے۔ بیٹا‘ اپنے باپ کی زندگی میں بھی اپنا حصہ الگ کر سکتا ہے اور اگر یہ شراکت‘ سائل کی وفات تک جاری رہتی ہے تو ترکہ کی تقسیم سے پہلے کاروبار سے چوتھا حصہ بیٹے کا دے دیا جائے گا اور بقیہ تین حصوں میں شرعی ورثاء شریک ہوں گے‘ ان میں سے اس کا بیٹا بھی ہے۔ وہ بھی بقیہ کاروبار اور دیگر جائیداد میں اپنا حصہ لینے کا حقدار ہے۔ قرآن مجید کی وضاحت کے مطابق مرحوم کی اولاد کی موجودگی میں بیوہ کا آٹھواں حصہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پھر اگر تمہاری اولاد ہو تو بیویوں کا آٹھواں حصہ ہے اس مال میں سے جو تم نے چھوڑا ہے۔‘‘ (النساء: ۱۱)

بیوہ کا آٹھواں حصہ نکالنے کے بعد بقایا جائیداد کے پانچ حصے کیے جائیں گے۔ ان میں سے دو حصے بیٹے کو اور ایک‘ ایک حصہ اس کی بیٹیوں کو دیا جائے گا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔‘‘ (النساء: ۱۱)

یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے‘ اس میں کسی کو ترمیم واضافہ کی اجازت نہیں‘ اللہ تعالیٰ نے اس قانون کو اپنی حدیں قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ اس کے رسول کا حکم خوش دلی سے مانے وہ اسے ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے اور جو اللہ‘ اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے تجاوز کرے وہ اسے آگ میں داخل کرے گا۔ ہمیشہ اس میں رہنے والا ہے اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘ (النساء: ۱۴)

یہ فتویٰ پڑھیں:                     میاں بیوی کا برہنہ ہونا

اس وضاحت کے بعد خاندان کے معززین کا فیصلہ کالعدم ہے کہ سائل کی وفات کے بعد اس کے کاروبار کا مالک اس کا بیٹا ہو گا۔ کیونکہ ایسا کرنا شریعت اور ملکی قانون دونوں کی خلاف ورزی ہے اور اللہ کی حدود کو پامال کرنا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے ورثاء کی بھی حق تلفی ہے۔ رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے (ترکہ میں سے) ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے تو اب وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔‘‘ (ترمذی‘ الوصایا: ۲۱۲۰)

خاندان کے معززین کو قطعا یہ حق نہیں کہ وہ ایسا فیصلہ کریں جو شریعت کے خلاف ہو۔ بلکہ یہ فیصلہ سراسر جہالت پر مبنی ہے۔ جیسا کہ ہمارے پاس ایک طلاق سے متعلق ایک کیس آیا کہ خاوند نے اپنی بیوی کو پندرہ دفعہ طلاق دی‘ ہر دفعہ معززین نے صلح کر کے بیوی کو خاوند کے حوالے کر دیا۔ حالانکہ شرعی اعتبار سے نکاح کے بعد خاوند کو صرف تین طلاقیں دینے کا اختیار ہے دو طلاق کے بعد خاوند کو رجوع یا تجدید نکاح کے ساتھ گھر آباد کرنے کا اختیار ہے جبکہ تیسری طلاق فیصلہ کن ہوتی ہے کہ اس کے بعد صلح بھی نہیں ہو سکتی اور تجدید نکاح سے بھی گھر آباد نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ مذکورہ کیس میں خاوند نے بیوی کو پندرہ طلاقیں دیں‘ اور ہر طلاق کے بعد معززین نے صلح کے بعد بیوی کو خاوند کے ساتھ روانہ کر دیا۔ برادریوں‘ خاندانوں اور جرگوں میں اس قسم کے فیصلے جہالت پر مبنی ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کا سختی سے محاسبہ کرے جو شریعت اور قانون کے خلاف فیصلے کر کے ملک میں انتشار پھیلاتے ہیں۔

یہ فتویٰ پڑھیں:                     بیوہ کے لیے عقد ثانی یا بچوں کی پرورش

بہرحال یہ فیصلہ غلط ہے۔ سائل کی وفات کے بعد جو ورثاء زندہ ہوں گے وہ اپنا حصہ وصول کرنے کے مجاز ہوں گے۔ اور جو سائل کی زندگی میں فوت ہو جائیں ان کا حصہ ختم ہو جاتا ہے۔ واللہ اعلم!


No comments:

Post a Comment

Pages