احتساب کے معنی
O رمضان کے روزے کے متعلق حدیث میں احتساب کا لفظ آیا
ہے‘ اس کا کیا معنی ہے؟ کیا احتساب کے بغیر رمضان کے روزے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کر دیں۔
P رمضان کے روزے کے متعلق سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’جس نے رمضان کا روزہ ایمان ویقین اور حصول ثواب کی نیت سے رکھا‘ اس کے پہلے
گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔‘‘ (بخاری‘ الصوم: ۱۹۰۱)
اس حدیث میں رمضان کے روزے کے لیے احتساب کا لفظ استعمال ہوا
ہے۔ اس کا معنی حصول ثواب کی نیت ہے۔ اگر کوئی انسان ایمان ویقین کے ساتھ کھانے پینے
سے پرہیز کرتا ہے لیکن اس کا مقصد حصول ثواب نہیں بلکہ کسی ڈاکٹر کے کہنے سے کھانے
پینے سے پرہیز کیا تو اس کے لیے قیامت کے دن اچھے بدلے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ دراصل
اعمال میں نیت کا کردار ہوتا ہے‘ اگر نیت میں اخلاص ہوا تو اللہ کے ہاں اجر وثواب کی
امید کی جا سکتی ہے۔ حدیث میں آنے والے لفظ احتساب کا یہی معنی ہے کہ روزے کا مقصد
حصول ثواب ہو۔ چنانچہ اس کے متعلق علامہ خطابی لکھتے ہیں: ’’اس سے مراد حصولِ ثواب
کی نیت ہے یعنی وہ رمضان کا روزہ اس ارادے سے رکھے کہ اسے اللہ کے ہاں اجر وثواب ملے
گا۔ اسے بوجھ خیال نہ کرے اور نہ ہی ان کے دنوں کی طوالت کا خیال ذہن میں لائے بلکہ
خوشدلی سے اس فریضے کو ادا کرے۔‘‘ (فتح الباری: ج۴‘ ص ۱۴۹)
امام بخاریa نے
اس سلسلہ میں بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی غرض سے
نیت کر کے رمضان کے روزے رکھے۔‘‘ (بخاری‘ الصوم‘ باب: ۶)
اس عنوان میں تین الفاظ ہیں: ایمان‘ احتساب اور نیت۔ اس کا مطلب
یہ ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ سے اچھا بدلہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا میں ایمان
ویقین کے ساتھ نیک عمل کیا جائے۔ نیز نیت بھی حصول ثواب کی ہو۔
بہرحال حدیث میں احتساب کا معنی حصول ثواب کی نیت ہے‘ ہمیں بھی
اسی نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھنے چاہئیں۔
No comments:
Post a Comment