آغاز میں چاند کا بڑا ہونا؟!
O اس دفعہ رمضان کی پہلی تاریخ کو چاند کافی بڑا تھا‘
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دوسری تاریخ کا چاند ہے اور ہمارا ایک روزہ ضائع کر دیا گیا
ہے‘ کیا ہمیں اس طرح سے رہ جانے والے روزے کی تلافی کرنا چاہیے؟ اس کی وضاحت کر دیں۔
P ماہ رمضان کا آغاز تین طرح سے کیا جاتا ہے جس کی تفصیل
حسب ذیل ہے:
\ شعبان کی انتیس تاریخ کو خود چاند کو دیکھ لیا جائے۔
\ اگر خود نہیں دیکھ سکا تو چاند دیکھنے کی معتبر شہادت مل جائے۔
\ اگر خود نہیں دیکھ سکا یا معتبر شہادت نہیں مل سکی تو شعبان
کے تیس دن پورے کر لیے جائیں۔ جیسا کہ حدیث میں اس بات کی صراحت ہے‘ چاند کا بڑا چھوٹا
ہونا قطعاً اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ماہ رمضان کا پہلے آغاز ہو چکا ہے‘ پہلی رات
کا چاند بڑا ہونا یہ قرب قیامت کی علامت ہے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعودt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’چاند کا بڑا ہونا قرب قیامت کی علامت ہے۔‘‘ (طبرانی کبیر: ج۱۰‘ ص ۱۹۸)
سیدنا انسt سے
مروی روایت میں مزید وضاحت ہے‘ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’قرب قیامت کی علامت ہے کہ پہلی رات کا چاند اتنا بڑا ہو گا کہ لوگ اسے دیکھ
کر کہیں گے کہ یہ دوسری رات کا چاند ہے۔‘‘ (طبرانی اوسد: ج۹‘ ص ۱۴۷)
محدث العصر علامہ البانیa نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ (صحیح الجامع‘ رقم:
۵۸۹۹)
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ انتیسویں تاریخ کو نظر آنے والا
چاند باریک ہوتا ہے جبکہ تیسویں شب کا چاند قدرے موٹا ہوتا ہے اور پھر دو تیس دنوں
کے مہینے کے بعد نظر آنے والا چاند مزید بڑا ہو گا۔ لہٰذا چاند کے باریک یا موٹا ہونے
کی بنیاد پر تاریخ کا فیصلہ کرنا قطعا مناسب نہیں۔ بعض اوقات مطلع کے بدلنے سے بھی
چاند میں فرق آجاتا ہے‘ لہٰذا تاریخ کا آغاز چاند دیکھنے سے یا معتبر شہادت ملنے سے
یا شعبان کے تیس دن پورے ہونے سے کرنا چاہیے۔ چاند کے موٹے یا باریک ہونے کے دیگر اسباب
بھی ہو سکتے ہیں لہٰذا اسے بنیاد نہیں بنانا چاہیے۔ ویسے ہمیں خود بھی اس میں دلچسپی
لینی چاہیے‘ محض رؤیت حلال پر کلی اعتماد بھی محل نظر ہے۔ بہرحال شکوک وشبہات کی بنیاد
پر رمضان کا آغاز صحیح نہیں اور نہ ہی اس قسم کے مشکوک دن کی قضاء ضروری ہے۔ واللہ
اعلم!
No comments:
Post a Comment