عشرۂ رمضان کی تقسیم F22-18-02 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Saturday, May 16, 2020

عشرۂ رمضان کی تقسیم F22-18-02

احکام ومسائل، رمضان، عشرہ رمضان کی تقسیم

عشرۂ رمضان کی تقسیم

O ہمارے ہاں جو بیان کیا جاتا ہے کہ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا‘ دوسرا عشرہ بخشش کا اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی ہے۔ پھر ہر عشرے کی الگ الگ دعائیں ہیں‘ ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
P جب ماہ رمضان کا آغاز ہوتا ہے تو ہمارے خطباء حضرات اپنے خطبات اور دروس میں بڑی شد ومد سے اس حدیث کو بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس کا اول عشرہ رحمت‘ درمیانہ عشرہ مغفرت اور آخری عشرہ جہنم سے خلاصی کا ہے۔
یہ فتویٰ پڑھیں:    آغاز میں چاند کا بڑا ہونا
اس حدیث کو صاحب مشکوٰۃ نے امام بیہقی کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے اپنی تالیف ’’شعب الایمان‘‘ میں اسے ذکر کیا ہے۔ شعب الایمان میں حدیث تلاش کرنا کارے دارد‘ ہم نے کافی ورق گردانی کے بعد اس حدیث کا سراغ لگایا‘ سیدنا سلمان فارسیt بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے ماہ شعبان کے آخری روز ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا‘ آپ کا یہ خطبہ کافی طویل ہے‘ مذکورہ الفاظ اسی خطبہ کا حصہ ہیں۔ (شعب الایمان ج۷‘ ص ۲۱۵‘ حدیث نمبر ۳۳۳۶)
امام ابن خزیمہa نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’رمضان کے مہینہ کی فضیلت بشرطیکہ یہ حدیث صحیح ہو۔‘‘ (صحیح ابن خزیمہ: ج۳‘ ص ۹۱)
امام ابن خزیمہa نے یہ انداز اختیار کر کے اس کے کمزور ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ چنانچہ محدث العصر علامہ البانی a نے اس حدیث کے متعلق لکھا ہے: ’’یہ انتہائی کمزور ہے۔‘‘ ملاحظہ ہو مشکوٰۃ المصابیح تحقیق البانی کتاب الصوم‘ الفصل الثالث حدیث نمبر ۱۹۶۵)
علامہ البانیa نے اس حدیث پر تفصیلی بحث کر کے اسے ’’منکر‘‘ ثابت کیا ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ: ج۲‘ ص ۲۶۲)
یہ فتویٰ پڑھیں:    لا یعنی گفتگو اور روزہ
جب ہم اس حدیث کی سند کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذکور روایت واقعی نا قابل اعتبار اور کمزور ہے جس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
\          اس کی سند میں ابوبکر اسماعیل بن محمد الضریر ہے‘ اس کے متعلق کتب رجال میں کوئی اتا پتا نہیں ملتا‘ اس بناء پر یہ مجہول راوی ہے۔
\          علی بن زید بن جدعان راوی کے کمزور ہونے پر اتفاق ہے۔
\          ایاس بن عبدالغفار جو ایاس بن ابی ایاس کے نام سے مشہور ہے اس کے متعلق علامہ عقیلی لکھتے ہیں کہ مجہول ہے اور اس کی بیان کردہ احادیث غیر محفوظ ہیں۔ (الضعفاء: ج۱‘ ص ۳۵)
\          ابوعبداللہ یوسف بن زیاد البصری کے متعلق امام بخاریa کہتے ہیں کہ منکر الحدیث اور امام دارقطنیa فرماتے ہیں کہ اباطیل بیان کرنے میں شہرت رکھتا ہے۔ (میزان الاعتدال: ج۴‘ ص ۴۶۵)
\          ایاس بن عبدالغفار جو ایاس بن ابی ایاس کے نام سے مشہور ہے اس کے متعلق علامہ عقیلی لکھتے ہیں کہ مجہول ہے اور اس کی بیان کردہ احادیث غیر محفوظ ہیں۔ (الضعفاء: ج۱‘ ص ۳۵)
یہ فتویٰ پڑھیں:    نماز وتر کی حیثیت
ہمیں بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ماہ رمضان کے فضائل قرآن میں موجود ہیں‘ صحیح احادیث میں ان کا بکثرت تذکرہ ہے‘ پھر ہمیں کمزور احادیث کا کیوں سہارا لینا پڑتا ہے؟ پھر اس مبارک مہینہ کی ہر رات رحمت بھری اور اللہ کی بخشش سے معمور ہے۔ نیز اس کی ہر رات جہنم سے آزادی کی رات ہے پھر ہم کیوں ان تینوں نعمتوں کو ایک ایک عشرہ تک محدود کرتے ہیں اور ہر عشرہ کے لیے ایک الگ دعا پڑھنے پر مجبور ہوئے ہیں؟ چنانچہ پہلے عشرہ کی یہ دعا مشہور ہے: [رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّاحِمِیْنَ] ’’اے میرے اللہ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحمت نازل فرما تو بہتر رحم کرنے والا ہے۔‘‘ دوسرے عشرہ میں یہ دعا بکثرت پڑھی جاتی ہے: [اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ] ’’میں اللہ سے تمام گناہوں کی معافی مانگتا ہوں اور اس کے حضور توبہ کرتا ہوں۔‘‘ تیسرے عشرہ میں یہ دعا مانگی جاتی ہے: [اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ] ’’اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے‘ مجھے معاف فرما دے۔‘‘
بلاشبہ مذکورہ دعائیں ثابت ہیں لیکن عشرہ اول‘ دوم اور سوم سے مخصوص کرنا محل نظر ہے۔ رمضان کے آخری عشرہ کی بہت فضیلت آئی ہے‘ رسول اللہeاس عشرہ میں عبادت کے لیے کمربستہ ہو جاتے اور اس قدر محنت کرتے کہ دوسرے دنوں میں اس قدر مشقت نہ اٹھاتے تھے۔ نیز اس عشرہ میں شب قدر ہے جس کی قرآن وحدیث میں بہت فضیلت آئی ہے۔ رسول اللہe نے سیدہ عائشہr کو یہ دعا پڑھنے کی تلقین کی تھی: [اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ]
یہ فتویٰ پڑھیں:    خواتین اور نماز تراویح
یہ فیوض وبرکات اس انسان کے لیے ہیں جو رمضان کی راتیں عبادت میں گذارتا ہے‘ اپنے گناہوں پر شرمسار ہو کر اللہ کے حضور اپنی خالص توبہ کا نذرانہ پیش کرتا ہے۔ بہرحال ماہ رمضان کی مذکورہ تقسیم اور ہر عشرہ کے لیے الگ الگ دعاؤں کی تخصیص صحیح نہیں۔ واللہ اعلم!


No comments:

Post a Comment

Pages