ٹھیکہ پر لی ہوئی زمین سے عشر
ادا کرنا
O میں زمین ٹھیکے پر لیتا ہوں اور اس میں کاشت کرتا ہوں‘
کیا ایسی زمین کی پیداوار سے بھی عشر ادا کرنا ہو گا؟ نیز عشر ادا کرنے کی صورت میں
ٹھیکے کی رقم کو منہا کر دیا جائے گا؟ اس کی وضاحت کر دیں۔
P ہمارے ہاں کاشت کاری کے لیے تین قسم کی زمین استعمال
ہوتی ہے جس کی تفصیل یہ ہے:
یہ فتویٰ پڑھیں: زرعی
زکوٰۃ کے مسائل
\ وہ زمین وراثت
کے طور پر چلی آتی ہے اور اسے کاشت کیا جاتا ہے‘ اس قسم کی زمین سے پیدا ہونے والی
اجناس سے عشر ادا کرنا ہو گا۔
\ زمین کو خرید
کر اس کے مالکانہ حقوق حاصل کیے جاتے ہیں‘ یہ زمین بھی قابل عشر ہے یعنی اس کی پیداوار
سے بھی عشر ادا کیا جائے گا۔
\ کچھ کاشت کار
زمین کو ایک سال کے لیے ٹھیکے پر لیتے ہیں‘ اس کی پیداوار سے بھی عشر ادا کرنا ہو گا۔
کیونکہ ایک سال تک وہ اس کا مالک ہوتا ہے‘ اس سے ٹھیکے کی رقم منہا نہیں کی جائے گی‘
زمین کا اصل مالک جس نے رقم لے کر اپنی زمین ٹھیکے پر دی ہے وہ اس رقم کو اپنی مجموعی
آمدنی میں شامل کر کے اس سے زکوٰۃ ادا کرے گا بشرطیکہ وہ رقم نصاب کو پہنچ جائے۔ زمین
ٹھیکے پر لینے والا کاشت کرنے میں صاحب اختیار ہوتا ہے اور زمین کی پیداوار کا مالک
ہوتا ہے تو وہ مختار ہونے کی حیثیت سے پیداوار کا عشر ادا کرے گا اور ٹھیکے کی رقم
اس پیداوار سے منہا نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح کاشتکار اپنی سہولت کے لیے یا اپنی پیداوار
بڑھانے کے لیے جو رقم خرچ کرتا ہے یہ بھی پیداوار سے نہیں نکالی جائے گی۔ البتہ محنت
ومشقت یا مالی اخراجات جو زمین کی سیرابی پر آتے ہیں ان کے پیش نظر شریعت نے اسے رعایت
دی ہے کہ وہ اپنی پیداوار سے عشر یعنی دسواں حصہ دینے کی بجائے نصف عشر یعنی بیسواں
حصہ ادا کرے۔ اگر اس رعایت کے باوجود ٹھیکے کی رقم کھاد‘ سپرے کے اخراجات‘ کٹائی کے
لیے مزدوری اور تھریشر وغیرہ کے اخراجات بھی منہا کر دیئے جائیں تو باقی کیا بچے گا
جو عشر کے طور پر ادا کیا جائے گا۔ لہٰذا اس سلسلہ میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ ٹھیکے
کی زمین سے ٹھیکے کی رقم پیدوار سے منہا نہیں ہو گی بلکہ کاشتکار اپنی مجموعی پیدوار
سے بیسواں حصہ بطور عشر ادا کرے بشرطیکہ اس کی پیداوار نصاب کو پہنچ جائے اور نصاب
پانچ وسق ہے اور اگر پیداوار اس سے کم ہے تو اس سے عشر نہیں نکالا جائے گا۔ ہاں اگر
مالک چاہے تو فی سبیل اللہ دینے پر کوئی قدغن نہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے پر اس کے
رزق میں مزید اضافہ اور برکت عطا فرمائے گا۔
یہ فتویٰ پڑھیں: کاشتکاری
پر دی ہوئی زمین کی پیداوار کا عشر
واضح رہے کہ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے گویا نصاب جنس ۶۰ × ۵ = ۳۰۰ صاع ہیں۔ جدید اعشاری
نظام کے مطابق ایک صاع دو کلو اور سو گرام کا ہوتا ہے‘ اس حساب سے پانچ وسق جنس کے
۶۳۰ کلو گرام بنتے ہیں۔
بعض اہل علم کے نزدیک ایک صاع اڑھائی کلو گرام کے مساوی ہے لہٰذا ان کے ہاں پیداوار
کا نصاب ۷۵۰ کلو گرام ہے‘ غرباء
اور مساکین کی ضروریات کے پیش نظر ہمارے رجحان کے مطابق پیداوار کا ۶۳۰ کلو گرام وزن مقرر
کیا جانا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment