کرنسی کا نصاب
O احادیث میں سونے اور چاندی سے زکوٰۃ دینے کا ذکر ہے‘
ہمارے ہاں تو کرنسی کے ذریعے کاروبار ہوتا ہے‘ اس کا کیا نصاب ہے؟ اگر زکوٰۃ نہ دی
جائے تو اس پر کیا وعید آتی ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیا جائے۔
P قرون اولیٰ میں سونے اور چاندی کو بطور کرنسی بھی استعمال
کیا جاتا تھا‘ احادیث میں درہم ودینار کا ذکر ملتا ہے‘ یہ دونوں بطور سکہ رائج تھے۔
ہمارے ہاں اغیار کی سازش سے درہم ودینار کی جگہ کرنسی نوٹوں نے لے لی ہے۔ بہرحال احادیث
میں سونے کا نصاب بیس دینار بیان ہوا ہے جو کم وبیش ساڑھے سات تولے کے برابر ہے۔
یہ فتویٰ پڑھیں: صاع کا
وزن اور اس کا حکم
موجودہ اعشاری نظام کے مطابق اس کے تقریبا ۸۷ گرام بنتے ہیں۔
اسی طرح چاندی کا نصاب دو صد درہم ہے جس کا وزن ساڑھے باون تولہ ہے۔ موجودہ اعشاری
نظام کے اعتبار سے یہ وزن ۶۱۲ گرام کے برابر ہے۔ جب سونے‘ چاندی کے اس نصاب پر سال گذر جائے
تو اس سے چالیسواں حصہ یعنی بیس دینار سے نصف دینار اور دو صد دراہم سے پانچ درہم بطور
زکوٰۃ ادا کرنا ہوں گے۔ عصر حاضر میں چونکہ سونا چاندی بطور کرنسی استعمال نہیں ہوتا
اس لیے ہماری موجودہ کرنسی اگر سونے یا چاندی کے نصاب کو پہنچ جائے تو اس سے چالیسواں
حصہ بطور زکوٰۃ ادا کرنا ہو گا۔ ہمارے رجحان کے مطابق غرباء اور مساکین کے فائدے کے
پیش نظر اگر کسی کے پاس اتنی کرنسی ہو کہ اس سے ساڑھے باون تولے (۶۱۲ گرام) چاندی خریدی
جا سکے تو اس سے زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی۔ مثلاً اگر چاندی کی قیمت ایک ہزار روپیہ تولہ
ہے تو ساڑھے باون ہزار روپوں میں زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ زکوٰۃ کی مقدار اڑھائی فی صد
ہے۔ جوحضرات زکوٰۃ ادا نہیں کرتے احادیث میں ان کے لیے دو قسم کے عذاب کی وعید آئی
ہے:
\ اس قسم کا خزانہ
سانپ کی شکل دھار کر اسے ڈسے گا۔
\ اس خزانے کو سونے
اور چاندی کے پتھروں میں ڈھال کر اسے گرم کر کے جسم کو داغا جائے گا۔
چونکہ ہمارے ہاں نوٹ رائج ہیں‘ زکوٰۃ نہ ادا کرنے کی صورت میں
عذاب بایں صورت ہو گا کہ ان نوٹوں کی گڈیوں کو سونے اور چاندی کے پتھروں میں تبدیل
کر کے انہیں دوزخ کی آگ میں خوب گرم کیا جائے گا‘ اس کے بعد زکوٰۃ نادہندگان کے پہلوؤں‘
پیشانیوں اور ان کی کمروں کو داغا جائے گا۔ نیز اس قسم کی دولت سانپ کی شکل اختیار
کر لے گی‘ جیسا کہ رسول اللہe کا
ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس انسان کو مال ودولت کی نعمت سے نوازے اور وہ اس سے
زکوٰۃ ادا نہ کرے تو اس کا وہ مال قیامت کے دن ایک گنجے سانپ کی شکل میں لایا جائے
گا جس کے دونوں جبڑوں سے زہریلی جھاگ بہہ رہی ہو گی۔ وہ طوق کی طرح اس کی گردن سے لپٹ
جائے گا‘ وہ اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے
گا ’’میں تیرا مال ہوں‘ میں تیرا خزانہ ہوں۔‘‘ (بخاری‘ الزکاۃ: ۱۴۰۳)
یہ فتویٰ پڑھیں: زرعی
زکوٰۃ کے مسائل
وہ سانپ اس قدر زہریلا ہو گا کہ زہر کی وجہ سے اس کے سر کا چمڑا
اڑ چکا ہو گا‘ اس وجہ سے اسے گنجا کہا جائے گا کیونکہ سانپ کے بال نہیں ہوتے۔ واللہ
اعلم
No comments:
Post a Comment