کسی دوسرے سے استخارہ کرانا F20-20-01 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Tuesday, September 29, 2020

کسی دوسرے سے استخارہ کرانا F20-20-01

ھفت روزہ اھل حدیث، احکام ومسائل، کسی دوسرے سے استخارہ کرانا

 

کسی دوسرے سے استخارہ کرانا

O کسی دوسرے شخص سے استخارہ کرانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ہمارے ہاں استخارہ سنٹر کھلے ہوئے ہیں‘ وہ لوگوں سے استخارے کی فیس لے کر دوسروں کے لیے استخارہ کرتے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں کہ استخارہ خود کرنا چاہیے یا دوسروں سے بھی کروایا جا سکتا ہے؟!

یہ فتویٰ پڑھیں:            بیوہ کے عقد ثانی کے بعد حق وراثت

P ’’استخارہ خود کرنا چاہیے یا کسی دوسرے سے بھی کروایا جا سکتا ہے؟‘‘ اس کے متعلق عام طور پر دو موقف ہیں‘ کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ استخارہ کسی دوسرے سے بھی کرایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ایک دعا ہے اور دعا دوسرے سے کروانا ثابت ہے جبکہ اکثر حضرات یہ رائے رکھتے ہیں کہ استخارہ خود ہی کرنا چاہیے۔ کیونکہ استخارہ ایک مخصوص دعا ہے اور اس کا ایک متعین طریقہ کار ہے اور اس دعا میں صراحت کے ساتھ ایسے الفاظ موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ استخارہ خود ہی کرنا چاہیے‘ کسی دوسرے سے کرانا ثابت نہیں۔ کسی دوسرے سے استخارہ کرنے کے لیے اس دعا کے الفاظ بھی بدلنے پڑ سکتے ہیں اور یہ تبدیلی درست نہیں۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ’’جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے۔‘‘ ان الفاظ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس انسان کو کوئی حاجت درپیش ہو وہ خود ہی استخارہ کرے۔ پھر دعائے استخارہ کے الفاظ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس میں ہے: ’’اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے بہتر ہے۔‘‘

اس کے علاوہ صحابہ کرام] کے معمولات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ رسول اللہe سے اپنے امور میں مشورہ تو لیتے تھے لیکن آپ سے استخارہ نہیں کراتے تھے۔ رسول اللہe دعائے استخارہ‘ صحابہ کرام] کو اس اہتمام سے سکھاتے جیسے قرآن مجید کی سورت یا آیت تعلیم فرماتے۔ رسول اللہe کے دور میں وحی نازل ہوتی تھی‘ جس کی روشنی میں خیر وشر کا تعین یقینی طور پر ہو سکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام] نے رسول اللہe سے نہ کبھی اپنے لیے استخارہ کروایا اور نہ ہی کسی اور کے لیے رسول اللہe نے استخارہ کیا۔ نیز کسی صحابی سے بھی کسی تابعی کے لیے استخارہ کرنا ثابت نہیں۔ اس کی بنیاد یہی معلوم ہوتی ہے کہ استخارہ نفلی نماز کے ساتھ وابستہ ہے۔ جس طرح نفلی نماز کسی دوسرے کی طرف سے نہیں ادا ہو سکتی اسی طرح استخارہ کی دو رکعت بھی کسی دوسرے کی طرف سے نہیں پڑھی جا سکتیں۔ دوسروں سے استخارہ کرانا ایک دکانداری بن چکا ہے۔ اس میں شعبدہ بازی سے کام لیا جاتا ہے بلکہ اس دکانداری نے استخارہ کے صحیح تصور ہی کو دھندلا کر رکھ دیا ہے۔ بلکہ ہمارے ہاں تو کچھ شعبدہ باز اور چرب زبان حضرات نے استخارہ سنٹر کھول رکھے ہیں۔ یہ دوسروں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی جان‘ عزت وآبرو اور مالو دولت پر شب خون مارتے ہیں۔ اس کام کے لیے ٹی وی پر باقاعدہ چینل کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لوگ ان سے سوال کرتے ہیں کہ حضرت! استخارہ کر کے بتائیں کہ میرا فلاں کام ہو گا یا نہیں۔ یہ حضرت کچھ وقت مراقبہ کرنے کے بعد کام کے ہونے یا نہ ہونے کا بتاتے ہیں۔ یہ دین فروشی کی انتہائی افسوسناک بلکہ شرمناک مثال ہے۔ ان کے ہاں استخارے کی فیس مقرر ہے۔ ماہر ڈاکٹر کی طرح سپیشلسٹ استخارہ کی فیس قدرے زیادہ ہوتی ہے۔

یہ فتویٰ پڑھیں:            استخارہ اور اس کے آداب

ہمارے رجحان کے مطابق دور حاضر میں جو استخارہ سنٹر جگہ جگہ کھلے ہوئے ہیں ان کی شرعی حالت انتہائی مخدوش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان خود استخارہ کرے۔ کسی دوسرے سے استخارہ کرانے کا شرعا کوئی ثبوت نہیں۔ ہاں اس شرط پر دوسرے کے لیے استخارہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ جس معاملہ میں استخارہ کر رہا ہے کسی نہ کسی طرح وہ بھی اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ مثلاً کوئی والد اپنی بیٹی کا رشتہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی بیٹی کے لیے استخارہ کر سکتا ہے کہ آیا اس کی شادی اس جگہ مناسب ہے یا نہیں؟ اس لیے انسان کو اپنی ذاتی ضرورت کے لیے خود ہی استخارہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ جس خلوص کے ساتھ وہ خود اپنے لیے خیر وبرکت طلب کر سکتا ہے کوئی بھی دوسرا اس انداز سے نہیں کر سکتا۔ البتہ کسی نیک انسان سے دعا کروائی جا سکتی ہے۔ دعا اور چیز ہے‘ یہ کسی بھی صالح انسان سے کروانا ثابت ہے۔ اس پر استخارہ کو قیاس کرنا درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ استخارہ ایک خاص عبادت ہے۔ اسے شریعت کے دائرے ہی میں سنت کے مطابق رہنے دیا جائے تو اسی میں خیر وبرکت ہے۔

آخر میں ہم یہ بات پھر دہراتے ہیں کہ دور حاضر میں قسمت کا حال بتانے والے نجومی شعبدہ باز جو عوام کو ان کی گم شدہ چیزوں کا پتہ دیتے ہیں اور ان کی مشکلات کا حل بتاتے ہیں پھر استخارے کے ذریعے ان کی بگڑی بناتے ہیں وہ کھلے کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔ آئے دن اخبارات میں بڑے بڑے قد آور اشتہارات اور جھوٹی کہانیاں شائع ہوتی ہیں‘ ان سے بچنا ایک موحد مسلمان کا اولین فریضہ ہے۔

یہ فتویٰ پڑھیں:            خودکشی اور ماں کی مامتا

اہل علم حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو استخارے کی دعا اور اس پر عمل کرنے کا طریقہ بتائیں جیسا کہ رسول اللہe اپنے صحابہ کرام] کو اس کی تعلیم دیتے تھے۔ (بخاری‘ الدعوات: ۶۳۸۲)



No comments:

Post a Comment

Pages