زرعی زکوٰۃ کے مسائل
O ہمارے ہاں کاشت کار حضرات کو زمین سے پیداوار اٹھانے
کے لیے بہت سے اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ کیا زرعی زکوٰۃ یعنی عشر ادا کرتے وقت
ان اخراجات کو مجموعی پیداوار سے منہا کر کے عشر ادا کیا جائے گا؟ کتاب وسنت کی روشنی
میں اس کی وضاحت کریں۔
P رسول اللہe کے دور میں عام طور پر مہاجرین تاجر اور انصار زراعت
پیشہ تھے‘ وہ لوگ زمین کو خود کاشت کرتے‘ خود ہی فصل کاٹتے اور پیداوار اٹھاتے تھے۔
البتہ زمین کی سیرابی کے لیے انہیں محنت ومشقت اور اخراجات برداشت کرنے کی وجہ سے انہیں
پیداوار کا بیسواں حصہ بطور عشر ادا کرنا ضروری تھا۔
یہ فتویٰ پڑھیں: صاع کا
وزن اور اس کا حجم
اس کے علاوہ پیداوار سے کسی قسم کے اخراجات منہا نہیں کیے جاتے
تھے۔ زرعی زکوٰۃ بھی اس وقت لاگو ہوتی تھی جب پیداوار نصاب کو پہنچ جاتی‘ اس کا نصاب
پانچ وسق ہے‘ اس سے کم پیداوار پر زرعی زکوٰۃ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ ایک وسق‘ ساٹھ صاع
کا ہوتا ہے گویا نصاب جنس ۶۰ × ۵ = ۳۰۰ صاع ہے۔ جدید اعشاری نظام کے مطابق ایک صاع میں دو کلو اور سو
گرام ہوتے ہیں۔ اس حساب سے پانچ وسق جنس کے ۶۳۰ کلو گرام بنتے ہیں۔
کچھ اہل علم کے ہاں ایک صاع اڑھائی کلو گرام کے مساوی ہے۔ ان کے ہاں پیداوار کا نصاب
۷۵۰ کلو گرام ہے۔ ہمارے
رجحان کے مطابق غرباء ومساکین کی ضروریات کے پیش نظر پیداوار کا ۶۳۰ کلوگرام وزن نصاب
مقرر کیا جانا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں زمین کی پیداوار پر درج ذیل اخراجات
اٹھانا پڑتے ہیں:
\ کچھ اخراجات زمین
کی سیرابی اور آب پاشی سے متعلق ہیں۔ مثلاً پانی خرید کر زمین کو سینچا جاتا ہے۔
\ کچھ اخراجات زمین
کی فصل بچانے یا بڑھانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ مثلاً کھاد اور سپرے وغیرہ کے اخراجات۔
\ کچھ اخراجات ایسے
ہیں کہ زمیندار اپنی سہولت اور محنت ومشقت سے بچنے کے لیے کرتا ہے۔ مثلاً بوتے وقت
ٹریکٹر کا استعمال‘ کٹائی کے وقت مزدور لگانا اور فصل اُٹھانے کے لیے تھریشر کا استعمال
وغیرہ۔
ان اخراجات کی وجہ سے زمیندار کاشتکار کو یہ رعایت دی گئی ہے
کہ وہ اپنی پیداوار سے عشر یعنی دسواں حصہ دینے کی بجائے نصف العشر یعنی بیسواں ادا
کرے۔ بیس من پیداوار سے ایک من فی سبیل اللہ دیا جائے۔ اگر اس رعایت کے باوجود کھاد
اور سپرے کے اخراجات‘ کٹائی کے لیے مزدوری اور تھریشر وغیرہ کے اخراجات بھی منہا کر
دیئے جائیں تو باقی کیا بچے گا جو عشر کے طور پر ادا کیا جائے۔ لہٰذا اس سلسلہ میں
ہمارا رجحان یہ ہے کہ کاشتکار کسی قسم کے اخراجات منہا کیے بغیر اپنی زمین کی مجموعی
پیداوار سے بیسواں حصہ بطور عشر ادا کرے‘ بشرطیکہ اس کی پیداوار پانچ وسق (۶۳۰ کلوگرام) تک پہنچ
جائے‘ اگر اس سے کم ہے تو اس میں عشر نہیں ہو گا۔ ہاں اگر کاشتکار چاہے تو کچھ دینے
پر کوئی قدغن نہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے پر اس کے رزق میں مزید اضافہ اور برکت عطا
فرمائے گا۔ کیونکہ اس نے خرچ کرنے پر فراوانی کا وعدہ کر رکھا ہے۔
یہ فتویٰ پڑھیں: فطرانہ
کیوں اور کتنا؟
اسی طرح ٹھیکے پر لینے والا کاشتکار بھی صاحب اختیار اور پیداوار
کا مالک ہوتا ہے۔ اس بناء پر وہ مختار ہونے کی حیثیت سے ٹھیکے کی رقم منہا کیے بغیر
زمین کی مجموعی پیداوار سے بیسواں حصہ ادا کرے بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچ جائے۔ کیونکہ
ایک اعتبار سے وہ ایک سال کے لیے زمین کا مالک ہی تصور ہوتا ہے۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment