خطبہ جمعہ کا طویل دورانیہ F10-08-05 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Friday, January 31, 2020

خطبہ جمعہ کا طویل دورانیہ F10-08-05


خطبہ جمعہ کا طویل دورانیہ

O ہمارے ہاں خطباء حضرات خطبہ جمعہ بہت لمبا کرتے ہیں، جس سے سامعین اکتا جاتے ہیں اور نماز بہت ہی مختصر پڑھاتے ہیں، کیا قرآن و حدیث میں اس کا جواز ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
P عقل منداور صاحب بصیرت خطیب وہ ہے جو حالات پر نظر رکھتے ہوئے خطبہ دیتے وقت جامع کلمات استعمال کرے اور مختصر گفتگو کرے کیونکہ مختصر اور جامع بات جلدی ذہن نشین ہو جاتی ہے، رسول اللہe طویل خطبے سے احتراز فرماتے تھے، چنانچہ حضرت جابر بن سمرہt سے روایت ہے کہ رسول اللہe بہت طویل وعظ و نصیحت نہیں فرماتے تھے بلکہ چند مختصر کلمات پر ہی اکتفاء فرماتے تھے۔ (ابوداؤد، الصلوٰۃ: ۱۱۰۷)
خطبہ کے متعلق رسول اللہe کا درج ذیل ارشاد گرامی ہمارے واعظین اور خطباء کیلئے مشعل راہ ہے، حضرت عمار بن یاسرt سے مروی ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا:
’’آدمی کی لمبی نماز اور چھوٹا خطبہ اس کی فقاھت کی علامت ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الجمعہ: ۸۶۹)
اس میں نماز اور خطبہ کا باہمی تقابل مراد نہیں ہے بلکہ عام نمازوں سے جمعہ کی نماز طویل اور عام خطبوں سے جمعہ کا خطبہ مختصر ہونا چاہیے، چنانچہ حضرت جابر بن سمرۃt سے روایت ہے کہ رسول اللہe کی نماز اور خطبہ اعتدال کے ساتھ ہوتے تھے۔ (مسلم، الجمعہ: ۸۶۶)
یہ بھی ذہن میں رہے کہ نماز بھی اتنی طویل نہ ہو کہ مقتدی حضرات اکتا جائیں اور وہ مشقت میں پڑ جائیں جیسا کہ ائمہ حضرات کو رسول اللہ e نے نماز کے متعلق تنبیہہ فرمائی ہے۔ بہرحال ہمارے خطباء حضرات کو چاہیے کہ وہ وقت اور سامعین کی نزاکت کا خیال رکھیں اور اعتدال کے ساتھ نماز اور خطبہ ادا کریں، دو اڑھائی گھنٹے پر مشتمل خطبہ جمعہ کسی طرح بھی درست نہیں ہے، خطبہ جامع، مختصر اور حالات کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے اور نماز کا بھی جھٹکا کرنے کے بجائے اعتدال کے ساتھ اسے ادا کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)

No comments:

Post a Comment

Pages