نکاح کے چھ ماہ بعد بچے کی پیدائش
O اگر کوئی عورت نکاح کے چھ ماہ بعد بچے کو جنم دے تو
شرعاً اس بچے کی کیا حیثیت ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
P قرآن کریم نے ایک مقام پر حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت
یکجا بیان کی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اس کے حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے۔‘‘ (الاحقاف: ۱۵)
دوسرے مقام پر مدت رضاعت بیان کی ہے کہ ’’رضاعت کی پوری مدت
دو سال ہے۔‘‘ (البقرہ: ۲۵۳)
تیسرے مقام پر فرمایا کہ ’’ماں کو دودھ چھڑانے میں دو سال لگ
گئے۔‘‘ (لقمان: ۱۳)
ان آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ
حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے کیونکہ قرآن کریم نے حمل اور دودھ چھڑانے کی مجموعی
مدت تیس ماہ بیان کی ہے پھر دودھ چھڑانے کی مدت دو سال کا ذکر کیا، اس مدت رضاعت کو
مجموعی مدت سے منہا کریں تو باقی چھ ماہ حمل کی مدت رہ جاتی ہے، چنانچہ بعض صحابہ کرامy نے
ان آیات سے یہ استدلال کیا ہے کہ کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے جیسا کہ حضرت معمر بن
عبداللہ جہنیt کہتے
ہیں کہ ہمارے قبیلہ کے ایک آدمی نے کسی عورت سے شادی کی تو اس نے شادی کے چھ ماہ بعد
بچہ جنم دیا، اس کے خاوند نے اس امر کا ذکر حضرت عثمانt سے
کیا تو انہوں نے اس عورت کو رجم کرنے کا حکم دیا، جب حضرت علیt کو
یہ بات پہنچی تو انہوں نے مذکورہ بالا آیات سے استدلال کر کے مسئلہ کی وضاحت کی، حضرت
عثمانt نے
اس سے اتفاق کرتے ہوئے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ (تفسیر ابن کثیر ص ۱۶۶ ج ۴)
ہمارا رجحان بھی یہ ہے کہ چھ ماہ کے بعد اگر کسی عورت کے ہاں
بچہ پیدا ہو جائے تو وہ بچہ حرامی نہیں بلکہ حلال ہی کا ہو گا اور اگر چھ ماہ سے پہلے
پیدا ہو جائے تو وہ موجودہ خاوند کا نہیں بلکہ کسی اور مرد کا ہو گا۔ زیادہ واضح الفاظ
میں وہ لڑکا ولد الزنا ہو گا اور اس کا وراثت سے بھی کچھ تعلق نہیں ہو گا اور بچے کی
ماں کو زنا کی حد پڑ سکتی ہے۔ موجودہ طبی تحقیقات کے مطابق حمل کی کم از کم مدت ۲۸ ہفتے قرار دی گئی
ہے، اگر یہ تحقیق صحیح ہو تو بھی شریعت نے اس مسئلہ کی اہمیت و نزاکت کے پیش نظر اس
مدت میں انتہائی احتیاط سے کام لیا ہے اور حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ قرار دی ہے،
چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہو تو والد یا عورت کا خاوند اس کے نسب سے انکار کرنے کا مجاز
نہ ہو گا۔ (واللہ اعلم)
No comments:
Post a Comment