مصلحت کے پیش نظر قسم توڑنا
O میں نے اپنی بیوی کو مخاطب ہو کر قسم اٹھائی کہ تو اپنے
میکے نہیں جائے گی‘ اب خیال آتا ہے کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا‘ میرے لئے اس
کا کیا حل ہے؟
P انسان کو قسم اٹھاتے وقت خوب غور و فکر کرنا چاہیے‘
اگر کوئی قسم اٹھانے کے بعد دیکھتا ہے کہ مصلحت اس میں نہیں بلکہ قسم کے خلاف کام کرنے
میں ہے تو اپنی قسم کو توڑ دیا جائے اور اس قسم کا کفارہ ادا کر دیا جائے، رسول اللہe کا
ارشاد گرامی ہے: ’’جب تو قسم اٹھائے پھر اس کام کے مقابلہ میں دوسرے کام کو بہتر سمجھے
تو قسم کا کفارہ ادا کر کے دوسرا بہتر کام کرے۔ (صحیح بخاری الایمان: ۶۶۲۲)
قسم کے کفارہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’اللہ تم سے تمہاری
لغو قسموں کے متعلق مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جن قسموں کو تم نے مضبوط کر کے اٹھایا
ہے‘ ان پر تم سے ضرور مواخذہ کرے گا۔ اس کا کفارہ دس مساکین کو اوسط درجے کا کھانا
دینا ہے جو تم اپنے گھروں میں کھاتے ہو یا انہیں لباس دینا یا غلام آزاد کرنا ہے لیکن
جو شخص ان کی طاقت نہ رکھے تو اس کے ذمے تین دن کے روزے ہیں‘ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ
ہے جب تم قسم اٹھا لو اور اپنی قسم کی حفاظت کیا کرو۔‘‘ (المائدہ: ۸۹)
اس حدیث اور آیت کے پیش نظر صورت مسئولہ میں قسم اٹھانے والے
کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو میکے جانے کی اجازت دے اور قسم توڑ دے اور پھر آیت میں
مذکور اس کا کفارہ ادا کر دے، انسان کو چاہیے کہ وہ قسم اٹھاتے وقت خوب سوچ و بچار
کرے، یہ کوئی بچوں کا کھلونا نہیں ہے کہ جب چاہے اسے توڑ لے اور جب چاہے اسے جوڑ لے۔
(واللہ اعلم)
No comments:
Post a Comment