بیوہ‘ دو بیٹیاں‘ ایک بھائی اور ایک بہن کا حصہ
O میرے نانا فوت ہو گئے ہیں ان کے پس ماندگان میں سے بیوہ،
دو بیٹیاں، ایک حقیقی بھائی اور ایک حقیقی بہن زندہ ہیں، ان ورثاء میں ان کی وراثت
کس طرح تقسیم ہوگی‘ کتاب وسنت کی روشنی میں جواب سے مطلع فرمائیں۔
P بشرط صحت سوال واضح ہو کہ صورت مسئولہ میں بیوہ کے لیے
کل جائیداد کا آٹھواں حصہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور اگر اولاد
ہے تو پھر ان بیویوں کا آٹھواں حصہ ہے۔ (النساء)
دوبیٹیوں کو کل جائیداد سے دو تہائی ملے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ
ہے:
’’اور اگر لڑکیاں (دو یا) دو سے زائد ہوں تو ان کو ترکہ سے دوتہائی حصہ ملے گا۔‘‘
(النساء)
مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کا حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے
گا وہ میت کے مذکر قریبی رشتہ دار کے لیے ہے جیسا کہ رسول اللہ e کا
ارشاد گرامی ہے:
’’مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کا حصہ دو اور جو باقی بچے وہ میت کے مذکر قریبی
رشتہ دار کے لیے ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، الفرائض: 6735)
اس صورت میں میت کا مذکر قریبی رشتہ دار حقیقی بھائی لیکن اس
کے ساتھ اس کی حقیقی بہن بھی موجود سے لہٰذا وہ بھی باقی کے ساتھ ترکہ کی حقدار ہے
البتہ ان میں تقسیم اس طرح ہو گی کہ مرد کو عورت کے مقابلہ میں دو گنا حصہ دیا جائے
گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور اگر میت کے کئی بہن بھائی ہوں یعنی مرد اور عورتیں ملے جلے ہوں تو مرد کو دو
عورتوں کے برابر حصہ ملے گا (النساء)
سہولت کے پیش نظر کل جائیداد کے چوبیس حصے کر لئے جائیں ان میں
سے آٹھواں یعنی تین حصے بیوہ کو اور دوتہائی یعنی سولہ حصے دونوں بیٹیوں کو پھر باقی
پانچ حصے حقیقی بھائی اور بہن کے ہیں لیکن یہ پانچ حصے بہن بھائی میں پورے پورے تقسیم
نہیں ہوتے ہیں اس لیے حصوں کو زیادہ کر لیا جائے اور تین سے ضرب دے کر چوبیس کے بجائے
۷۲ حصے بنالئے جائیں
پھر ہر ایک کے حصے کو تین سے ضرب دی تو درج ذیل صورت بن جائے گی:
کل حصے
|
بیوہ
|
بیٹی
|
بیٹی
|
بہن
|
بھائی
|
24
|
3
|
8
|
8
|
2.5
|
2.5
|
واللہ
اعلم
No comments:
Post a Comment