رکوع اور سجود کے بغیر نماز ادا
کرنا
O بوقت مجبوری رکوع و سجود کے بغیر نماز ادا کرنا صحیح
ہے یا نہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں مکمل راہنمائی فرمائیں۔
P نماز کے کچھ اعمال یہ حیثیت رکھتے ہیں کہ اگر انہیں
عمداً یا بھول کر چھوڑ دیا جائے تو پوری نماز باطل ہو جاتی ہے یا وہ رکعت باطل ہو جاتی
ہے جس میں وہ عمل چھوٹ گیا ہو اور بعد والی رکعت خودبخود اس متروکہ عمل والی رکعت کے
قائم مقام ہو جاتی ہے، دوران نماز اس قسم کے عمل کو رکن کہا جاتا ہے، رکوع اور سجدہ
بھی ارکان نماز سے ہیں‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے ایمان والو!
رکوع اور سجدہ کرتے رہو۔‘‘ (الحج: ۷۷)
اس آیت کریمہ سے دوران نماز رکوع اور سجدہ کی رکنیت ثابت ہوتی
ہے‘ علاوہ ازیں رسول اللہe سے
دوران نماز ہر رکعت میں رکوع اور سجدہ کرنا ثابت ہے لہٰذا قرآن و سنت سے رکوع اور
سجدہ کی فرضیت ثابت ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، ہاں اگر کوئی مجبوری ہو تو رکوع
اور سجدہ کی ادائیگی میں تبدیلی ہو سکتی ہے مثلاً میدان جنگ میں اگر نماز ادا کرنا
ہو تو چلتے پھرتے نماز ادا کی جا سکتی ہے اور اس میں رکوع اور سجدہ کی ادائیگی عام
طریقہ سے ہٹ کر ہو گی، امام بخاریؒ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا
ہے:
’’دشمن کا پیچھا
کرنے والے یا جس کا دشمن پیچھا کر رہا ہو وہ سواری کی حالت میں اشارہ سے نماز ادا کر
لے۔‘‘ (صحیح بخاری، الخوف باب نمبر ۵)
اسی طرح اگر سفر کے دوران نماز ادا کرنا پڑے اور قیام ممکن نہ
ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھی جا سکتی ہے، اس حالت میں بھی رکوع اور سجدہ عام طریقہ کے مطابق
ادا نہیں کیا جا سکے گا بلکہ حدیث میں اس کی کیفیت یوں بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہe سواری
پر بیٹھے بیٹھے نفل پڑھتے اور سجدہ کرتے وقت رکوع کی نسبت کچھ زیادہ جھکتے تھے۔ (ابوداؤد‘
المسافر)
نیز جب انسان بیمار ہو اور بیٹھ کر بھی نماز نہ پڑھ سکتا ہو
تو بھی اشارہ سے رکوع اور سجدہ کیا جا سکتا ہے، الغرض رکوع اور سجدہ کے بغیر نماز نہیں
ہوتی، البتہ ان کی ادائیگی میں تبدیلی ہو سکتی ہے، بیٹھ کر، لیٹے لیٹے نماز پڑھتے وقت
رکوع اور سجدہ کرنا ہوگا، اس کے بغیر نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ دونوں ایسے رکن
ہیں کہ ان کے ترک سے نماز باطل ہے، (واللہ اعلم)
No comments:
Post a Comment