ایصال ثواب وبرکت کیلئے قرآنی
خوانی
O اہل حدیث شمارہ نمبر ۱۷ مجریہ ۲۳ اپریل میں قبرستان
میں قرآن خوانی کے متعلق ایک فتویٰ شائع ہوا ہے، آپ نے لکھا ہے کہ قبرستان چونکہ
قراءت قرآن کا محل نہیں ہے لہٰذا اس میں قرآن خوانی کا اہتمام خلاف شریعت ہے، اس
فتویٰ میں عدم جواز کیلئے اس امر کو علالت قرار دیا گیا ہے کہ قبرستان، قراءت قرآن
کا محل نہیں ہے۔ اس سے یہ متبادر ہوتا ہے کہ جو مقامات قراءت قرآن کا محل ہیں وہاں
قرآن خوانی کی جا سکتی ہے۔ مثلاً
\ گھروں میں
برکت کیلئے قرآن خوانی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
\ کارخانوں
اور فیکٹریوں میں کاروبار کی ترقی کیلئے قرآن خوانی کرائی جاتی ہے۔
\ کسی بیمار
کی شفایابی کیلئے بھی گھروں میں قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
\ ناگہانی
آفات سے محفوظ رہنے کیلئے بسوں میں قرآن خوانی بھی کی جاتی ہے۔
\ شادی ہال
میں قرآن خوانی کا اہتمام ہوتا ہے۔
\ فوت شدگان
کے ایصال ثواب کیلئے حفاظ کرام کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں‘ اس قسم کا اہتمام گھروں
اور مساجد میں کیا جاتا ہے۔
یہ مذکورہ تمام مقامات قرآن پڑھنے کا محل ہیں‘ کیا ان مقامات
میں قرآن خوانی کرائی جا سکتی ہے؟ امید ہے کہ اس مسئلہ کی وضاحت اوّلین فرصت میں کر
دیں گے تا کہ آپ کے استعمال کردہ الفاظ سے شکوک و شبہات پیدا نہ ہوں۔
P
مولانا محمد بشیر
الطیب ہمارے محسن اور دیرینہ ساتھی ہیں‘ ان کے انتباہ پر ہم شکر گزار ہیں، اللہ تعالیٰ
انہیں اجر جزیل عطا فرمائے، اصل بات یہ ہے کہ مروجہ قرآن خوانی کئی ایک اعتبار سے
محل نظر ہے، قبرستان میں اس کا اہتمام کسی طرح سے بھی درست نہیں‘ اس کے ناجائز ہونے
کی کئی ایک وجوہات ہیں‘ جن میں سے ہم نے صرف ایک علت کو بیان کیا تھا کہ قبرستان قراءت
قرآن کا محل نہیں‘ لہٰذا وہاں قرآن خوانی کا اہتمام خلاف شریعت ہے، اس عبارت کا قطعاً
یہ مطلب نہیں ہے کہ جن مقامات میں قرآن پڑھا جا سکتا ہے وہاں مروجہ قرآن خوانی جائز
ہے‘ بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق مروجہ قرآن خوانی برائے حصول برکت یا شفاء مریضاں
یا ترقی کاروبار یا ایصال ثواب ناجائز ہے‘ کیونکہ رسول اللہe اور صحابہ کرام] سے یہ عمل ثابت نہیں ہے‘ اگر ایسا کرنا خیر و برکت کا
ذریعہ ہوتا تو اسلاف اسے ضرور عمل میں لاتے، خیر القرون میں اس کا اہتمام نہ کرنا اس
کے محل نظر ہونے کے لئے کافی ہے‘ رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے:
’’جو شخص ہمارے اس
امر دین میں نیا کام کرتا ہے وہ مردود اور ناقابل قبول ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، الصلح: ۲۶۹۷)
نیز آپ کا فرمان ہے:
’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہماری مہر ثبت نہیں وہ رد کر دینے کے قابل ہے۔‘‘
(صحیح مسلم‘ الاقضیہ: ۱۷۱۸)
اس طرح کے غیر مشروع کام کو جائز قرار دینا انتہائی سنگین اقدام
ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہe کے
دور میں دین مکمل نہیں ہوا تھا، حالانکہ قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ رسول اللہe کی
زندگی میں ہی دین اسلام مکمل ہو چکا تھا، اب اس میں کسی چیز کے اضافہ کی قطعاً ضرورت
نہیں ہے‘ ایسا کرنا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی کا پیش خیمہ ہوتی ہے‘ جیسا کہ رسول
اللہe کا
فرمان ہے: ’’ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الجمعۃ: ۸۶۷)
بہرحال مروجہ قرآن خوانی بدعت ہے اور اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(واللہ اعلم)
No comments:
Post a Comment