لے پالک کی ولدیت F20-08-01 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Friday, February 28, 2020

لے پالک کی ولدیت F20-08-01



لے پالک کی ولدیت

O میں نے ایک طلاق یافتہ عورت سے شادی کی‘ اس کی سابقہ خاوند سے ایک بیٹی اس کے ہمراہ تھی۔ میں نے ب فارم بناتے وقت ولدیت کے خانہ میں اپنا نام لکھوا دیا تا کہ آئندہ سکول میں داخلہ کے وقت کوئی پریشانی نہ ہو۔ کیا شرعی طور پر میں نے درست کیا ہے؟
P دین اسلام میں لے پالک بیٹا اپنے نقلی باپ کا بیٹا نہیں بن سکتا۔ اس کا باپ وہی ہے جس کے نطفہ سے وہ پیدا ہوا ہے۔ اسی طرح کوئی دوسرا شخص لے پالک کا حقیقی باپ بن سکتا ہے اور نہ ہی وہ اس کا حقیقی بیٹا ہو سکتا ہے۔ نہ ہی کسی شخص کے دو باپ ہو سکتے ہیں۔ دور جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ آدمی اپنے لے پالک بیٹے کو حقیقی بیٹے کا مقام دیتے ہوئے‘ اس کی نسبت اپنی طرف کر لیتا اور اسے وہی حقوق دیتا جو حقیقی بیٹے کے ہوتے ہیں۔ رسول اللہ e نے بھی اس وقت کے رسم ورواج کے مطابق سیدنا زید بن حارثہt کو اپنا لے پالک بیٹا بنایا۔ لوگ بھی آپ کو زید بن محمد کہہ کر بلاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح فرمائی اور باقاعدہ قرآن میں اس کے متعلق آیات نازل فرمائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے حقیقی بیٹے نہیں بنایا۔ یہ تو تمہارے منہ کی باتیں ہیں مگر اللہ تعالیٰ حقیقی بات کہتا ہے اور وہی درست راہ دکھاتا ہے‘ ان منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ اللہ کے ہاں یہی انصاف کی بات ہے۔ اگر تمہیں ان کے باپوں کے نام کا علم نہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں۔‘‘ (الاحزاب: ۴-۵)
مذکورہ آیات کا شان نزول‘ ذکر کردہ واقعہ ہے۔ (بخاری‘ التفسیر: ۴۷۸۲)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کو اس کے حقیقی باپ ہی کی طرف منسوب کرنا چاہیے‘ کسی بھی دوسرے کی طرف اس کی نسبت نہ کی جائے۔ نیز حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ کوئی شخص بھی خود کو اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص یا دوسری قوم کی طرف منسوب نہ کرے۔ چنانچہ سیدنا ابوذرt کا بیان ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’جس نے بھی دوسرے شخص کو دیدہ ودانستہ باپ بنایا‘ وہ کافر ہو گیا اور جو شخص خود کو کسی دوسری قوم کا فرد بتائے وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔‘‘ (بخاری‘ المناقب: ۳۵۰۷)
سائل نے ایک مطلقہ عورت سے نکاح کیا اور اس کے سابق خاوند کی بیٹی کو اپنی طرف منسوب کر کے اپنی ولدیت لکھوا دی‘ ایسا کرنا دور جاہلیت کی ایک مردہ رسم کو زندہ کرنا ہے۔ حالانکہ اسے حقیقی باپ کی طرف منسوب کرنا چاہیے تھا اور کاغذات تیار کرتے وقت ولدیت کے خانہ میں حقیقی باپ کا نام ہی لکھوانا چاہیے تھا۔ اب بھی اس کی درست ولدیت کے ساتھ اس کے کاغذات تیار کیے جائیں۔ بصورت دیگر مستقبل میں بہت شرعی مشکلات اور قانونی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ بہرحال بچی کی نسبت اس کے حقیقی باپ ہی کی طرف ہونی چاہیے۔ واللہ اعلم!

No comments:

Post a Comment

Pages