واقعہ حرہ کیا ہے؟! F20-09-02 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Monday, March 9, 2020

واقعہ حرہ کیا ہے؟! F20-09-02


واقعہ حرہ کیا ہے؟!

O تاریخ کی کتابوں میں واقعہ حرہ کے متعلق بہت سنگین قسم کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں کہ شامی افواج نے مدینہ طیبہ میں بہت اودھم مچایا اور قتل وغارت کا بازار گرم کیے رکھا۔ کتب احادیث میں اس کی حقیقت کس انداز میں بیان ہوئی ہے؟
P کچھ مؤرخین نے صحابہ کرام] کے کردار واخلاق کی اس انداز سے تصویر کشی کی ہے کہ وہ آپس میں بغض وعناد رکھنے والے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے جبکہ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپس میں انتہائی رحم دل اور ایک دوسرے سے ہمدردی کرنے والے تھے۔ واقعہ حرہ کے متعلق بھی مؤرخین نے بہت بھیانک اور خوفناک حالات بیان کیے ہیں۔ حالانکہ اس واقعہ کا مختصر طور پر پس منظر کچھ یوں ہے کہ اہل مدینہ سے کچھ لوگ دمشق میں یزید کے پاس گئے تا کہ انہیں ان کے کردار کا پتہ چلے۔ وہاں ان کی خوب مہمان نوازی ہوئی‘ خاطر ومدارت کی گئی‘ واپس آکر انہوں نے بتایا کہ یزید شراب نوشی اور زنا کاری میں مبتلا ہے۔ یہ یزید بن معاویہ کے آخری ایام کی بات ہے۔ دمشق سے واپس آنے والوں نے مدینہ طیبہ کی اکثریت کو اپنے ساتھ ملائے بغیر حکومت وقت کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا اور امیر مدینہ عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو وہاں سے نکال دیا۔ بیعت توڑنے والوں میں عبداللہ بن حنظلہ اور عبداللہ بن مطیع پیش پیش تھے۔ چنانچہ عبداللہ بن مطیع اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حضرت محمد بن علی بن ابی طالبw جو ابن حنفیہ کے نام سے مشہور ہیں کے پاس گئے اور ان سے بیعت توڑنے کی درخواست کی لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ عبداللہ بن مطیع نے کہا: یزید شراب پیتا ہے‘ نماز نہیں پڑھتا اور کتاب اللہ کے احکام کی پروا نہیں کرتا۔ محمد بن علیw نے جواب دیا‘ میں یزید سے خود ملا ہوں۔ ان کے ساتھ رہا ہوں۔ میں نے تو اس میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی بلکہ میں نے انہیں ہمیشہ نماز کا پابند‘ خیر کا متلاشی اور سنت کا متبع پایا ہے۔ (البدایہ والنہایہ: ج۸‘ ص ۲۳۳)
اس وقت سیدنا عبداللہ بن عمرw کا رد عمل کیا تھا؟ ان کے شاگرد حضرت نافع نے بیان کیا ہے جسے امام بخاریa نے نقل کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’جب اہل مدینہ نے یزید بن معاویہt کی بیعت توڑ دی تو سیدنا عبداللہ بن عمرw نے اپنے خدام اور بیٹوں کو جمع کیا اور فرمایا: بلاشبہ میں نے رسول اللہe سے سنا ہے‘ آپe نے فرمایا: ’’قیامت کے دن ہر غدار کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا۔‘‘  ہم نے اس شخص کی بیعت اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کی ہے‘ میرے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی غداری نہیں کہ ایک شخص سے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی جائے پھر اس کے خلاف لڑائی کھڑی کی جائے۔ دیکھو! تم میں سے جو کوئی اس کی بیعت توڑے گا اور کسی دوسرے کی بیعت کرے گا تو ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔‘‘ (بخاری‘ الفتن: ۷۱۱۱)
اس حدیث پر امام بخاریa نے یوں عنوان قائم کیا ہے: ’’ایک شخص قوم سے کوئی بات کہے‘ پھر وہاں سے نکل کر دوسری بات کہنے لگے۔‘‘ (بخاری‘ الفتن‘ باب: ۲۱)
بہرحال بیعت توڑنے والوں نے مدینہ طیبہ کے تینوں طرف خندق کھودی اور چوتھی طرف انصار کے اسی محلہ کو حصار خیال کیا جو ان کا ہمنوا نہیں تھا۔ جب یزید کو اس بغاوت کی اطلاع ملی تو انہوں نے مسلم بن عقبہ کی زیر کمان ایک فوج بھیجی اور انہیں حکم دیا کہ پہلے ان لوگوں پر امان پیش کریں۔ اگر نہ مانیں تو ان سے جنگ کریں۔ چنانچہ انہوں نے مدینہ پہنچ کر ان کی ہدایات کے مطابق عمل کیا‘ جب اہل مدینہ نے انکار کیا تو انصار کے بڑے گھرانے بنو اشہل کے تعاون سے فوج شہر میں داخل ہوئی اور گنتی کے چند گھنٹوں میں شہر پر قبضہ ہو گیا۔ واقعہ تو اسی قدر ہے لیکن مؤرخین نے بڑے دیومالائی انداز میں اس کی تفصیلات خود مرتب کی ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔
ہمارے رجحان کے مطابق ایک اسلامی سربراہ کی بیعت توڑنے کے جو شرعی تقاضے ہیں اہل مدینہ نے انہیں ملحوظ خاطر نہیں رکھا تھا۔ امام بخاریa کے عنوان سے بھی پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ دمشق میں سربراہ حکومت کے پاس گئے اور وہاں سے واپس آکر خلاف واقعہ باتیں کیں‘ سیدنا ابن عمرw نے بیعت توڑنے کے متعلق جس قسم کے رد عمل کا اظہار کیا‘ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات نے بغاوت کے لیے جس چیز کو پیش کیا وہ شریعت کے مطابق نہ تھی۔ چنانچہ ایک روایت میں مزید وضاحت ہے جو حسب ذیل ہے: ’’یزید بن معاویہt کے زمانہ حکومت میں جب حرہ کا واقعہ پیش آیا تو سیدنا ابن عمرw عبداللہ بن مطیع کے پاس گئے تو انہوں نے کہا: ’’ابوعبدالرحمن کے لیے مسند لاؤ‘‘ آپ نے فرمایا: میں تمہارے پاس بیٹھنے کے لیے نہیں آیا بلکہ وہ حدیث بیان کرنے کے لیے آیا ہوں جسے میں نے رسول اللہe سے سنا ہے۔ آپe نے فرمایا: ’’جس نے اطاعت کا عہد کرنے کے بعد اسے توڑ دیا‘ وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے اس طرح حاضر ہو گا کہ اس کے پاس کوئی حجت اور دلیل نہیں ہو گی اور اگر وہ اسی حالت میں مر گیا کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ (مسلم‘ الامارہ: ۴۷۹۳)
اس کو پڑھیں:    سیاہ لباس کا استعمال
اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس امام کی حکمرانی پر امت کا اجماع ہو‘ اس کی بیعت لازم اور اس کے خلاف خروج حرام ہے۔ واقعہ حرہ کا پس منظر تو اسی قدر ہے‘ اس کے آگے جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اس کی حیثیت زیب داستان کے علاوہ کچھ نہیں۔ آخر میں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بغاوت میں حصہ لینے والوں کو معاف فرمائے اور قیامت کے دن ہم سب کو اپنے عرش کے سایہ تلے جگہ عنایت فرمائے۔ آمین!


No comments:

Post a Comment

Pages