گروی زمین سے فائدہ اٹھانا F20-10-01 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Tuesday, March 10, 2020

گروی زمین سے فائدہ اٹھانا F20-10-01


گروی زمین سے فائدہ اٹھانا

O میں نے کسی شخص سے کچھ رقم ادھار لی ہے اور قرضہ کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی زمین اس کے پاس گروی رکھی ہے۔ اب کیا وہ اس زمین کو کاشت کر کے اس کی پیداوار اُٹھا سکتا ہے یا نہیں؟ قرآن وحدیث میں اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟
اس کو پڑھیں:    واقعہ حرہ کیا ہے؟!
P قرض دینے کے بعد اس کی واپسی یقینی بنانے کے لیے مقروض کی کوئی چیز اپنے پاس رکھنا گروی کہلاتا ہے‘ گروی شدہ چیز سے فائدہ اٹھانے کے متعلق علماء کی مختلف آراء حسب ذیل ہیں:
\       مطلق طور پر گروی شدہ چیز سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے‘ یہ جائز اور مباح ہے۔
\       گروی شدہ چیز کی بنیاد قرض ہے اور جس نفع کی بنیاد قرض ہو وہ سود ہوتا ہے‘ لہٰذا گروی شدہ چیز سے فائدہ اٹھانا سود کی ایک قسم ہے اور ایسا کرنا شرعا ناجائز اور حرام ہے۔
حقیقت کے اعتبار سے گروی شدہ چیز چونکہ اصل مالک کی ہے‘ اس لیے اس کی حفاظت ونگہداشت بھی اس کی ذمہ داری ہے‘ اگر ایسا کرنا ناممکن یا دشوار ہو یا وہ خود اس ذمہ داری سے دستبردار ہو جائے تو جس کے پاس گروی رکھی ہے وہ بقدر حفاظت اس سے فائدہ اٹھانے کا مجاز ہے۔ امام بخاری a نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’گروی شدہ جانور پر سواری کرنا اور اس کا دودھ پینا۔‘‘ (بخاری‘ الرہن‘ باب نمبر ۴)
اس سلسلہ میں انہوں نے ایک حدیث پیش کی ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’گروی شدہ جانور پر بقدر خرچ سواری کی جا سکتی ہے اور دودھ دینے والے جانور کا (بقدر خرچ) دودھ بھی پیا جا سکتا ہے جبکہ وہ گروی شدہ ہو۔‘‘ (بخاری‘ الرہن: ۲۵۱۱)
اس عنوان میں پیش کردہ حدیث میں امام بخاریa کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ وہ مرہونہ چیز سے فائدہ لینے کے قائل نہیں ہیں۔ ہاں اس پر جتنا خرچ ہو‘ اس کے مطابق فائدہ لیا جا سکتا ہے۔ اس سے زائد فائدہ حاصل کرنا کسی صورت میں جائز نہیں۔ ہمارے رجحان کے مطابق اگر گروی شدہ چیز دودھ دینے والا یا سواری کے قابل کوئی جانور ہے تو اس کی حفاظت ونگہداشت پر اٹھنے والے اخراجات کے بقدر اس سے فائدہ لیا جا سکتا ہے اور اگر گروی شدہ چیز ایسی ہے کہ اس کی حفاظت ونگرانی پر کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ مثلاً زیورات یا قیمتی دستاویزات تو ایسی چیز سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں کیونکہ ایسا کرنا گویا اپنے قرض کے عوض فائدہ اٹھانا ہے جس میں سود کا واضح شائبہ ہے۔ اگر گروی شدہ چیز زمین کی صورت میں ہے جیسا کہ صورت مسئولہ میں بیان کیا گیا ہے تو زمین کا اصل مالک قرض لینے والا ہے اس لیے اس کا حق ہے کہ وہ اسے خود کاشت کرے اور اس کی پیداوار اٹھائے۔ البتہ قرض کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی زمین سے متعلقہ کاغذات‘ رجسٹری اور دیگر دستاویزات دائن یعنی قرض دینے والے کے پاس رکھے۔ اگر کسی وجہ سے ایسا ناممکن ہو تو جس کے پاس زمین گروی رکھی گئی ہے وہ خود اسے کاشت کرے اور اس پر اٹھنے والے اخراجات منہا کر کے اس کا نفع وغیرہ دو حصوں میں تقسیم کر لیا جائے۔ ایک حصہ اپنی محنت کے عوض خود رکھ لے اور دوسرا حصہ زمین کے اصل مالک کو دے دیا جائے یا حصہ دینے کی بجائے اس کے قرض سے اتنی رقم منہا کر دے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رائج الوقت اس گروی شدہ زمین کا جتنا ٹھیکہ ہو سالانہ شرح حساب سے اس کے قرض سے منہا کر دی جائے۔ اس طرح قرض کی رقم جب پوری ہو جائے تو زمین اصل مالک کے حوالے کر دی جائے۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل دو صورتیں بالکل ناجائز اور حرام ہیں:
\       جس کے پاس زمین گروی رکھی جائے وہ اسے خود کاشت کرے اور اس کی پیداوار خود ہی استعمال کرتا رہے‘ اصل مالک کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے۔
\       اگرو قت مقررہ پر قرض وصول نہ ہو تو گروی شدہ زمین بحق قرض ضبط کر لی جائے۔
یہ دونوں صورتیں ظلم اور زیادتی کا باعث ہیں اور دوسرے کا مال باطل طریقے سے کھانے کے مترادف ہیں لہٰذا ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس کی تفصیل ہم نے ہدایۃ القاری شرح صحیح بخاری میں لکھی ہے وہاں مطالعہ کر لیا جائے۔ (ہدایہ القاری: ج۴‘ ص ۴۸۴)۔ واللہ اعلم!


No comments:

Post a Comment

Pages