ہدیہ واپس کرنا F20-10-03 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Tuesday, March 10, 2020

ہدیہ واپس کرنا F20-10-03


ہدیہ واپس کرنا

O میں با اختیار سرکاری ملازم ہوں اور ذمہ داری کے ساتھ فرائض منصبی ادا کرتا ہوں‘ میرے پڑوسی بعض اوقات کوئی کام لینے کے لیے گھر میں ہدیہ کے طور پر کوئی چیز بھیج دیتے ہیں‘ جسے میں واپس کر دیتا ہوں‘ کیا ہدیہ واپس کرنا صحیح ہے؟
P کتاب وسنت میں ہدیہ دینے اور اسے قبول کرنے کی بہت ترغیب دی گئی ہے۔ رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے: ’’آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو کیونکہ ایسا کرنے سے محبت بڑھتی ہے اور دلوں سے نفرت وکدورت دور ہوتی ہے۔‘‘ (الادب المفرد‘ حدیث نمبر: ۵۹۴)
رسول اللہe کا حسب ذیل ارشاد گرامی بھی قابل ملاحظہ ہے: ’’ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے‘ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ (بخاری‘ الہبہ: ۲۵۶۶)
سیدہ عائشہr بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہe ہدیہ قبول فرما لیتے اور اس کا بدلہ بھی دیتے تھے۔ (بخاری‘ الہبہ: ۲۵۸۵)
بہرحال ہدایا کے تبادلہ سے تعلقات خوشگوار رہتے ہیں اور افراد معاشرہ میں محبت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں لیکن بعض اوقات ایسے حالات سامنے آجاتے ہیں کہ ہدیہ‘ اللہ کے لیے نہیں بلکہ اپنے مفادات نکالنے کے لیے دیا جاتا ہے جیسا کہ خلیفہ راشد سیدنا عمر بن عبدالعزیزa کا بیان ہے: ’’ہدیہ تو رسول اللہe کے زمانہ مبارک میں ہوا کرتا تھا آج کل تو یہ رشوت کا روپ دھار چکا ہے۔‘‘ (طبقات ابن سعد: ج۵‘ ص ۳۷۷)
جو کسی مجبوری کی وجہ سے ہدیہ قبول نہ کرے۔ (بخاری‘ الہبہ‘ باب نمبر ۱۷)
اس کے بعد امام بخاریa نے ایک حدیث بیان کی ہے کہ سیدنا صعب بن جثامہ لیثی t نے رسول اللہe کی خدمت میں ایک گاؤ خر بطور تحفہ پیش کیا جبکہ آپ احرام کی حالت میں تھے‘ آپ نے اسے واپس کرتے ہوئے فرمایا: ’’تمہارا ہدیہ واپس کرنا مناسب تو نہ تھا لیکن بات یہ ہے کہ ہم حالت احرام میں ہیں۔‘‘ (بخاری‘ الہبہ: ۲۵۹۶)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اسباب کی بناء پر ہدیہ واپس بھی کیا جا سکتا ہے وہ اسباب حسب ذیل ہو سکتے ہیں:
\       ذاتی طور پر کسی حرام چیز کا ہدیہ ہو۔ جیسے شراب وغیرہ
\       ذاتی طور پر حرام نہیں لیکن کسی خارجی سبب کی وجہ سے اس کا استعمال صحیح نہیں جیسا کہ محرم کے لیے شکار کا ہدیہ۔
\       سرکاری اہل کار کو کوئی تحفہ پیش کیا جائے تا کہ کوئی ناجائز کام اس کے ذریعے نکالا جائے جیسا کہ صورت مسئولہ میں ہے۔ لیکن واپس کرتے وقت اس کی وجہ بتا دی جائے۔ واللہ اعلم!


No comments:

Post a Comment

Pages