عورت کی امامت؟!
O میں کالج میں زیر تعلیم ہوں‘ ہمیں کالج میں نماز ظہر
ادا کرنا پڑتی ہے۔ میں لڑکیوں کی امامت کراتی ہوں‘ کیا عورت کا امامت کرانا جائز ہے؟
میں نے سنا ہے کہ عورت امامت نہیں کروا سکتی‘ اس سلسلہ میں ہماری رہنمائی کریں۔
P عورت‘ عورتوں کی امامت کروا سکتی ہے‘ لیکن وہ امامت
کرواتے وقت آگے بڑھ کر کھڑی نہیں ہو گی بلکہ وہ دوسری عورتوں کے درمیان میں کھڑی ہو
گی۔ چنانچہ امام ابوداودؒ نے اپنی سنن میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’عورتوں
کی امامت کا مسئلہ۔‘‘ (ابوداود‘ الصلوٰۃ‘ باب نمبر ۶)
پھر ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ رسول اللہe سیدہ
ام ورقہr کے
ہاں اس کے گھر میں ملاقات کے لیے آیا کرتے تھے‘ آپ e نے ان کے لیے ایک مؤذن مقرر کر دیا تھا جو ان کے لیے
اذان دیتا تھا۔ رسول اللہe نے
اسے حکم دیا تھا کہ وہ اپنے اہل خانہ کی امامت کروایا کرے۔ (ابوداود‘ الصلوٰۃ: ۵۹۲)
ابوداودؒ کی ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے کافی قرآن یاد کر
رکھا تھا‘ ایک روایت میں ہے کہ وہ اپنے گھر کی عورتوں کو نماز باجماعت پڑھایا کرتی
تھیں۔ (دارقطنی‘ حدیث نمبر ۱۰۶۹)
واضح رہے کہ سیدہ ام ورقہr کا مؤذن ایک بوڑھا شخص تھا جو اذان دے کر چلا جاتا
تھااور سیدہ ام ورقہr صرف
اہل خانہ عورتوں کی جماعت کراتی تھیں۔ ایک حدیث میں وضاحت ہے کہ آپr فرض
نماز کی جماعت کراتی تھیں۔ (صحیح ابن خزیمہ‘ حدیث ۱۶۷۶)
اسی طرح سیدہ عائشہr اور سیدہ ام سلمہr کے متعلق بھی احادیث میں آیا ہے کہ وہ عورتوں کی امامت
کراتی تھیں۔ (سنن دارقطنی‘ حدیث نمبر: ۱۴۹۲)
نیز سیدہ حجیرہ بنت حصینr بیان کرتی ہیں کہ سیدہ سلمہr نے
ہمیں عصر کی نماز پڑھائی تو وہ ہمارے درمیان کھڑی ہوئیں۔ (بیہقی: ج۳‘ ص ۱۳۰)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت جماعت کروا سکتی ہے لیکن
اس کے لیے درج ذیل شرائط ہیں:
\ وہ صرف عورتوں کی جماعت کروائے‘ مرد حضرات اس کے پیچھے کھڑے
نہ ہوں۔
\ وہ عورتوں کے درمیان پہلی صف میں کھڑی ہو‘ آگے بڑھ کر جماعت
نہ کروائے۔ (واللہ اعلم!)
No comments:
Post a Comment