روزے کا فدیہ
O میرے ایک ساتھی نے مجھ سے کہا کہ صاحب استطاعت کو بھی
روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے کیونکہ قرآن کریم میں ہے کہ جو شخص روزے کی طاقت رکھتا
ہے وہ فدیہ دے کر روزہ چھوڑ سکتا ہے‘ کیا قرآن مجید میں ایسا کوئی حکم ہے؟
P فرضیت روزہ کے ابتدائی دور میں روزہ فرض تو تھا لیکن
اگر کوئی شخص عذر کے بغیر روزہ چھوڑنا چاہتا تو اسے اجازت تھی کہ روزہ نہ رکھے مگر
اسے فدیہ دینا پڑتا تھا۔ جیسا کہ سیدنا معاذ بن جبلt فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ’’جو روزے کی طاقت
رکھتے ہیں (اور روزہ نہیں رکھنا چاہتے) تو ان پر ایک مسکین کا طعام ہے۔‘‘ (البقرہ:
۱۸۴)
چنانچہ جو چاہتا روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا چھوڑ دیتا اور ہر
دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا اور یہ اس کے لیے کافی ہوتا تھا۔ (ابوداؤد‘
الصلوٰۃ: ۵۰۷)
سیدنا سلمہ بن اکوعt سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ (بخاری‘ التفسیر: ۴۵۰۷)
ان حضرات کے نزدیک یہ آیت منسوخ ہے اور اس کی ناسخ اگلی آیت
ہے: ’’جو شخص اس مہینے کو پائے تو وہ اس کے روزے رکھے۔‘‘ (البقرہ: ۱۸۵)
لیکن سیدنا ابن عباسw جو انتہائی ذہین اور انہیں رسول اللہe کی
خصوصی دعا بھی تھی‘ ان کے نزدیک یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ فدیہ کی سہولت ان لوگوں کے
لیے ہے جو روزہ نہیں رکھ سکتے یا روزہ برداشت نہیں کر سکتے وہ روزہ نہ رکھیں اور فدیہ
دے دیں۔ اس سے مراد انتہائی بوڑھا مرد یا انتہائی بوڑھی عورت ہے جو روزہ کی طاقت نہیں
رکھتے۔ (بخاری‘ التفسیر: ۴۵۰۵) عربی لغت میں سیدنا
عبداللہ بن عباسw کے
بیان کردہ معنی کی بھی گنجائش ہے۔
ان دونوں قسم کی تفسیر کا نتیجہ ایک ہی ہے کہ جو شخص روزے کی
طاقت رکھتا ہے‘ وہ روزہ نہیں چھوڑ سکتا اور فدیہ دینے کی سہولت اس شخص کے لیے ہے جو
روزہ رکھ ہی نہیں سکتا جیسے بوڑھا مرد یا دائمی مریض وغیرہ! اب کسی شخص کو یہ حق نہیں
کہ پہلا موقف بیان کرے اور دوسرے موقف کی بناء پر پہلے کو غیر منسوخ قرار دے پھر ہر
شخص کو روزہ چھوڑنے اور فدیہ دینے کی اجازت دے دے‘ جیسا کہ سوال میں یہ ثابت کرنے کی
کوشش کی گئی ہے۔ کیونکہ ایسا کرنا قرآن وحدیث اور اجماع امت کے خلاف ہے۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment