طلوع فجر سے پہلے روزہ کی نیت
O ایک آدمی آغاز رمضان کے اعلان سے پہلے سو جاتا ہے اور
طلوع فجر کے بعد اسے معلوم ہوا کہ ماہِ رمضان شروع ہوچکا ہے‘ لیکن وہ رات کے وقت سونے
کی وجہ سے روزے کی نیت نہیں کر سکا‘ اب اس کے لیے کیا حکم ہے؟ وہ روزہ رکھے یا بعد
میں اس کی قضا دے؟
P رمضان المبارک کے روزوں کے لیے طلوع فجر سے پہلے رات
کے وقت نیت کرنا ضروری ہے‘ جو شخص رات کے وقت رمضان کے روزے کی نیت نہیں کرتا اور اس
کے بغیر ہی روزہ رکھ لیتا ہے‘ اس کا روزہ نہیں۔ رسول اللہe کا
ارشاد گرامی ہے: ’’جس نے فجر سے قبل رات کو روزے کی نیت نہیں کی اس کا روزہ نہیں۔‘‘
(ابوداود‘ الصیام: ۲۴۵۴)
واضح رہے کہ نیت کا تعلق دل سے ہے‘ زبان سے نیت کرنا قرآن وسنت
سے ثابت نہیں۔ مختلف کتابچوں اور کیلنڈروں میں روزے کی نیت کے الفاظ شائع کیے جاتے
ہیں وہ بے اصل اور بے بنیاد ہیں‘ البتہ نفلی روزے کی نیت موقع پر بھی کی جا سکتی ہے۔
اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ رات کے وقت اس کی نیت کر کے سوئے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہr سے
مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہe میرے
پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا نہیں‘ یہ
سن کر آپe نے
فرمایا: ’’تب میں روزے دار ہوں۔‘‘ (مسلم‘ الصیام:
۱۱۵۱)
صورت مسئولہ میں جو شخص ماہ رمضان ثابت ہونے سے قبل یا اس کا
اعلان ہونے سے پہلے سو گیا اور طلوع فجر کے بعد بیدار ہوا جبکہ اس نے رات کے وقت روزے
کی نیت نہیں کی تھی تو اس کے متعلق جمہور اہل علم کی رائے ہے کہ اسے رمضان کے بعد اس
روزے کی قضا دینا ہو گی۔ البتہ احترام رمضان کے پیش نظر اسے کھانے پینے سے پرہیز کرنا
چاہیے۔ احناف کے نزدیک چونکہ زوالِ آفتاب سے پہلے پہلے فرض روزے کی نیت کی جا سکتی
ہے‘ اس کے لیے رات کے وقت نیت کرنا ضروری نہیں‘ لہٰذا ایسا شخص جب بیدار ہو تو روزے
کی نیت کر لے اور کچھ کھائے پیئے بغیر اپنا روزہ پورا کرے اور اسے بعد میں قضا دینے
کی ضرورت نہیں۔ چونکہ جمہور اہل علم کے نزدیک رات کو فرض روزے کی نیت کرنا ضروری ہے‘
اس لیے مذکورہ شخص کا روزہ نہیں۔
ہمارا رجحان بھی یہی ہے کہ اس شخص نے رات کو روزے کی نیت نہیں
کی اس لیے اس کا روزہ نہیں۔ جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے البتہ احتیاط کے پیش نظر
اسے دن کے وقت کھانے پینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment