شب قدر کی علامتیں F24-18-02 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Monday, May 18, 2020

شب قدر کی علامتیں F24-18-02

احکام ومسائل، شب قدر کی علامتیں، رمضان، شب قدر

شب قدر کی علامتیں

O شب قدر کے متعلق میں نے کسی حدیث میں پڑھا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے اٹھا لیا ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو اسے تلاش کرنا چہ معنی دارد؟ کیا اس کی کوئی علامت ہے جسے اس رات کی شناخت قرار دیا جا سکے؟
P ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہe اپنے گھر سے نکلے تا کہ صحابہ کرام] کو شب قدر کے متعلق آگاہ فرمائیں۔ راستے میں کچھ صحابہ کسی معاملے میں جھگڑ رہے تھے۔ میں انہیں سمجھانے کے لیے وہاں رکا تو شب قدر کو اٹھا لیا گیا۔ شاید تمہارے لیے یہی بہتر تھا۔ (بخاری‘ فضل لیلۃ القدر: ۲۰۲۳)
یہ فتویٰ پڑھیں:    کم از کم مدتِ اعتکاف
اس حدیث کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ شب قدر کو اٹھا لیا گیا حالانکہ اس کی تعیین اور معرفت کو اٹھا لیا گیا تھا۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ رسول اللہe نے اس کے بعد اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر شب قدر کی ذات اور اس کے وجود کو اٹھا لیا گیا ہوتا تو اسے مخصوص راتوں میں تلاش کرنا چہ معنی دارد؟ چنانچہ امام بخاریa نے  اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’لوگوں کے جھگڑے کی وجہ سے شب قدر کی معرفت کا اٹھ جانا۔‘‘ (بخاری‘ فضل لیلۃ القدر‘ باب نمبر ۴)
محدثین کرام نے امام بخاریa کے اس قسم کے تراجم اور عناوین کو ’’شارحہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اس کی معرفت اور پہچان کا اٹھایا جانا ہمارے لیے اس لیے بہتر ہے کہ اس اخفاء کی وجہ سے کم از کم آخری عشرے کی عبادت ہوتی رہے گی۔ بصورت دیگر لوگ صرف متعین رات میں ہی عبادت کرتے۔ البتہ مختلف احادیث میں شب قدر کے متعلق کچھ نشانیوں سے امت کو آگاہ کیا گیا ہے۔ لیکن اکثر نشانیوں کا تعلق شب قدر کے گذرنے کے بعد ہے۔ ان میں سے کچھ نشانیوں کو ہم ذکر کرتے ہیں:
\          شب قدر کی صبح کو سورج بلند ہونے تک اس کی شعاع نہیں ہوتی‘ وہ تھالی کی مانند ہوتا ہے (مسلم‘ حدیث نمبر ۱۷۸۵)
\          اس میں جب چاند طلوع ہوتا ہے تو بڑے تھال کے کنارے کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ (مسلم‘ الصیام: ۲۷۷۹)
\          وہ رات بڑی معتدل ہوتی ہے‘ اس میں نہ گرمی ہوتی ہے نہ سردی‘ اس کی صبح کا سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اس کی سرخی مدھم ہوتی ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ: ج۳‘ ص ۳۳۱)
\          حافظ ابن حجرa نے ابن ابی شیبہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس رات ہلکی ہلکی ہوا چلتی ہے اور بارش بھی ہوتی ہے۔ (فتح الباری: ج۴‘ ص ۳۳۰)
یہ فتویٰ پڑھیں:    قطبین میں افطار
واضح رہے کہ مذکورہ نشانیاں امکان کے طور پر ہیں بطور شرط کے نہیں۔ مثلاً شب قدر کی ایک نشانی ہلکی ہلکی بارش کا ہونا ہے مگر کتنے رمضان گذر جاتے ہیں کہ ان میں بوندا باندی یا بارش نہیں ہوتی۔ حالانکہ ان میں لیلۃ القدر کا ہونا بر حق اور یقینی ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جن خوش قسمت لوگوں کو اس کا ادراک ہوتا ہے تو وہ اس کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتے اور جو لوگ اس کا چرچا کرتے ہیں ان کا مقصود خود کو تقدس کی چادر میں لپیٹنا ہوتا ہے۔
حافظ ابن حجرa نے طبری کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس رات ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ تمام درخت سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ نیز آپ نے امام بیہقیa کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس رات نمکین اور کھارا پانی میٹھا ہو جاتا ہے۔ لیکن ان روایات کی استنادی حیثیت انتہائی کمزور ہے۔ (فتح الباری: ج۴‘ ص ۳۳۰)
بہرحال صاحب بصیرت انسان کو چاہیے کہ وہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں اخلاص نیت اور طلب ثواب کے ارادہ کے ساتھ اللہ کی عبادت کرے۔ اگر اسے شب قدر کا ادراک نہ بھی ہو اور نہ ہی کوئی امر خارق عادت دیکھے تو بھی اسے لیلۃ القدر کے فضائل وثمرات سے محروم نہیں کیا جائے گا اور اگر اس دوران میں رقت قلب طاری ہو اور آنکھوں سے آنسو بہہ پڑیں تو یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں لیلۃ القدر کے ادراک سے بہرہ ور کیا۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات خود رسول اللہe کو بھی اس رات کا ادراک نہ ہوتا تھا تا ہم آپ خود کو عبادت میں مصروف رکھتے جیسا کہ رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے کہ مجھے خواب میں شب قدر دکھائی جا رہی تھی‘ اچانک مجھے اہل خانہ نے بیدار کر دیا تو میں اسے بھول گیا۔ (صحیح مسلم‘ الصیام: ۲۷۶۸)
یہ فتویٰ پڑھیں:    روزے کا فدیہ
ہمیں بھی چاہیے کہ اس کی نشانیوں کا تتبع نہ کریں بلکہ تمام تر توجہ اللہ کی عبادت پر مرکوز رہے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس رات کے فیوض وثمرات اور اس کی برکات سے محروم نہ کرے گا۔ واللہ اعلم!

No comments:

Post a Comment

Pages