آخری عشرہ میں وعظ ونصیحت کا اہتمام F24-18-03 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Monday, May 18, 2020

آخری عشرہ میں وعظ ونصیحت کا اہتمام F24-18-03

آخری عشرہ میں وعظ ونصیحت کا اہتمام، احکام ومسائل، آخری عشرہ، رمضان، شب قدر، قیام اللیل

آخری عشرہ میں وعظ ونصیحت کا اہتمام

O رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں تقاریر ودروس کا اہتمام کیا جاتا ہے‘ یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ بعض مساجد میں لائٹیں بند کر کے اجتماعی دعا کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کیا ہمارے اسلاف سے اس کے متعلق کوئی ثبوت ملتا ہے؟ وضاحت کریں۔
P رمضان المبارک کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے لمحات میں انسان کا دل‘ اللہ تعالیٰ کی طرف مائل ہوتا ہے اور اس ذات اقدس کے قرب خاص کو وجدانی طور پر محسوس کرتا ہے۔
یہ فتویٰ پڑھیں:    دوران سفر روزہ رکھنا
ویسے تو سارا مہینہ ہی اللہ کی طرف سے خیرات وبرکات اپنے جلو میں لے کر آتا ہے لیکن آخری عشرہ مخصوص انوار وتجلیات کا حامل ہوتا ہے۔ رسول اللہe اس آخری عشرے میں عبادت کے لیے خصوصی اہتمام فرماتے تھے جیسا کہ سیدہ عائشہr بیان فرماتی ہیں: ’’جب رمضان کا آخری عشرہ ہوتا تو رسول اللہe عبادت کے لیے کمربستہ ہو جاتے۔ شب بیداری فرماتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بیدار کرتے تا کہ وہ بھی عبادت میں مصروف ہوں۔‘‘ (بخاری‘ فضل لیلۃ القدر: ۲۰۲۴)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہe اس عشرہ میں اپنی بیویوں سے الگ ہو جاتے‘ بستر کو لپیٹ دیتے اور خوب کمر بستہ ہو کر ان راتوں میں عبادت کا اہتمام کرتے۔ نیز اپنے اہل وعیال کو بھی عبادت کے لیے بیدار کرتے۔ سیدہ عائشہr کا ہی بیان ہے: ’’رسول اللہe آخری عشرے میں اتنی محنت کرتے کہ دوسرے دنوں میں اتنی مشقت نہیں اٹھاتے تھے۔‘‘ (ابن ماجہ‘ الصیام: ۱۷۶۷)
اس میں کوئی شک نہیں کہ روح کی بالیدگی اور دل میں پاکیزگی اس وقت پیدا ہو سکتی ہے جب انسان کا دل مخلوق سے بے پروا ہو کر اللہ کی طرف مائل ہوتا ہے اور آخری عشرہ اس امر کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ انفرادی عبادت کی بجائے اجتماعی عبادت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ طاق راتوں میں تقاریر اور دروس ہوتے ہیں۔ سارا عشرہ بہترین مشروبات اور ماکولات کے لیے مخصوص کر دیا جاتا ہے۔
یہ فتویٰ پڑھیں:    کم از کم مدتِ اعتکاف
پھر بعض مقامات پر بتیاں بجھا کر اجتماعی دعا کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہمارے خطباء حضرات خود پر مصنوعی خشیت طاری کر کے لوگوں پر اپنے تقدس کی دھاک بٹھاتے ہیں جبکہ اسلاف میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایسی حرکات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم!

No comments:

Post a Comment

Pages