ماہِ رمضان میں وفات پانے والا
O حدیث میں ہے کہ رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے
ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان میں وفات
پانے والا شخص سیدھا جنت میں جائے گا اور اس کا حساب نہیں ہو گا؟
P اس میں کوئی شک نہیں کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو
جنت کے دروازے وا کر دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازوں کو بند کر دیا جاتا ہے۔ اس
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جنت کے دروازے عمل کرنے والوں میں نشاط پیدا کرنے کے لیے کھول
دیئے جاتے ہیں تا کہ ان کے لیے داخلہ میں آسانی ہو اور جہنم کے دروازے اس لیے بند کر
دیئے جاتے ہیں تا کہ اہل ایمان گناہوں سے رک جائیں۔ اور ان دروازوں سے داخل ہونے کا
موقع نہ رہے۔
اس کا قطعا معنی یہ نہیں کہ جو شخص رمضان میں فوت ہوتا ہے وہ
بغیر حساب جنت میں جائے گا کیونکہ جنت میں داخلے کے لیے ایمان اور توحید بنیادی شرط
ہے۔ معرکہ بدر رمضان میں ہوا تھا‘ ابوجہل اسی مہینہ میں واصل جہنم ہوا کیونکہ وہ ایمان
کی دولت سے محروم تھا۔ پھر بغیر حساب جنت میں داخل ہونے والے وہ خوش نصیب ہیں جن کی
تعداد ستر ہزار ہو گی اور ان کے اوصاف احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے:
’’وہ ناجائز دم جھاڑ نہیں کراتے‘ وہ بدشگونی نہیں لیتے‘ وہ آگ سے علاج نہیں کراتے‘
داغ نہیں لگواتے اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔‘‘ (مسلم‘ الایمان: ۲۱۸)
ان اوصاف کے ساتھ ساتھ وہ دوسرے اعمال صالحہ بھی بجا لاتے ہیں
جو ان پر واجب ہیں۔ بہرحال رمضان میں ایمان کے ساتھ فوت ہونا بہت بڑی سعادت ہے لیکن
اس کا یہ مفہوم نہیں کہ اس سے حساب نہیں لیا جائے گا۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment