اذانِ تہجد یا اذانِ سحر
O ہمارے ہاں مساجد
میں فجر کی دو اذانیں ہوتی ہیں‘ ان دونوں کے درمیان تقریبا ایک گھنٹے کا فاصلہ
ہوتا ہے‘ پہلی اذان کو اذان تہجد کہا جاتا ہے‘ جبکہ کچھ اہل علم اذان اول کو صحیح نہیں
کہتے‘ کیا اذان اول کا ثبوت ہے اور اسے اذان تہجد ہی کہا جاتا ہے؟ وضاحت کریں۔
P رسول اللہe کے عہد مبارک میں نماز فجر سے پہلے دو اذانیں ہوا کرتی
تھیں۔ پہلی اذان کے لیے سیدنا بلالt تعینات تھے جبکہ دوسری اذان سیدنا ابن ام مکتومt کہا
کرتے تھے‘ پہلی اذان فجر کاذب کے بعد اور دوسری اذان فجر صادق کے بعد دی جاتی تھی۔
چنانچہ رسول اللہe کا
ارشاد گرامی ہے: ’’فجر کی دو اقسام ہیں‘ ایک فجر جس میں کھانا حرام اور نماز حلال ہوتی
ہے اور دوسری وہ جس میں نماز حرام اور کھانا حلال ہوتا ہے۔‘‘ (صحیح ابن خزیمہ: ج۱‘ ص ۱۸۵))
ایک روایت میں ہے کہ ’’وہ فجر جس میں کھانا حرام ہوتا ہے وہ
افق میں دائیں بائیں پھیلی ہوتی ہے اور دوسری فجر کاذب جو بھیڑیے کی دم کی طرح فضا
میں بلند ہوتی ہے۔‘‘ (مستدرک حاکم: ج۱‘ ص ۵۹۱)
پہلی اذان کا مقصود بایں الفاظ بیان ہوا ہے‘ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’تمہیں بلال کی اذان سحری کھانے سے ہرگز نہ روکے کیونکہ وہ رات میں اذان دیتا
ہے تا کہ تمہارا قیام کرنے والا لوٹ جائے اور سونے والا متنبہ ہو جائے۔‘‘ (بخاری‘ الاذان:
۶۲۱)
اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی اذان تہجد کے لیے نہیں ہوتی تھی بلکہ
تہجد گذار حضرات کو گھر واپس بھیجنے کے لیے دی جاتی تھی تا کہ وہ نماز فجر کی تیاری
کریں اور اگر روزہ رکھنا ہے تو سحری تناول کریں۔ ہمارے ہاں اس اذان کا نام اذان تہجد
غلط مشہور ہو گیا ہے‘ چنانجہ ایک روایت میں مزید وضاحت ہے: ’’بلال رات میں اذان کہتے
ہیں‘ لہٰذا تم سحری کھاؤ پیئو حتی کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔ یہ نابینا شخص تھے اور
اس وقت تک اذان نہ کہتے تھے جب تک انہیں بتایا نہ جاتا کہ صبح ہو گئی ہے‘ صبح ہو گئی
ہے۔‘‘ (بخاری‘ الاذان: ۶۱۷)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’تم میں سے کسی کو بلال کی اذان سحری کے
متعلق دھوکے میں مبتلا نہ کرے (کہ وہ رک جائے اور سحری نہ کرے۔)‘‘ (مسلم‘ الصیام: ۱۰۹۴)
طلوع فجر سے قبل اذان دینا مستحب ہے۔ حافظ ابن قیمa نے
اس کی مشروعیت واستحباب کو پرزور طریقے سے ثابت کیا ہے۔ (اعلام الموقعین: ج۲‘ ص ۳۲۵)
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صرف رمضان میں سحری کی اذان کا اہتمام
ہونا چاہیے‘ دیگر ایام میں اس کی ضرورت نہیں‘ لیکن ہمارے رجحان کے مطابق رمضان کے علاوہ
دیگر ایام میں بھی اذان اول کا اہتمام کرنا مسنون ومستحب ہے کیونکہ صحابہ کرام] تقریبا
سارا سال ہی وقتا فوقتا روزے رکھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ اس لیے پورا سال ہی انہیں اس
اذان کی ضرورت رہتی تھی۔ رمضان کے علاوہ روزوں کی تفصیل حسب ذیل ہے:
b رمضان کے بعد ماہ
شوال کے چھ روزے۔
b پورے محرم کے روزوں
کو افضل الصیام کہا گیا ہے۔
b ایام بیض یعنی
چاند کی ۱۳‘ ۱۴‘ ۱۵ کے روزے۔
b ہر ہفتے سوموار
اور جمعرات کے دن کا روزہ۔
b اکثر ماہ شعبان
کے روزے بھی مسنون ہیں۔
b ذوالحجہ کے ابتدائی
نو دنوں کے روزے۔
b عاشوراء محرم کا
روزہ بلکہ دس محرم کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی رکھا جاتا تھا۔
b حجاج کرام کے علاوہ
دوسرے حضرات کے لیے یوم عرفہ کا روزہ بھی بہت فضیلت کا باعث ہے۔
b رسول اللہe نے
صیام داؤدی کو احب الصیام قرار دیا ہے‘ اس صورت میں آدھا سال روزوں کے ساتھ گذرتا
ہے۔ یعنی ایک دن روزہ رکھا جائے اور ایک دن اسے چھوڑ دیا جائے۔
بہرحال اذان اول سارا سال چلتی تھی‘ اسے صرف رمضان کے ساتھ خاص
کرنا انتہائی محل نظر ہے۔ احناف کے علاوہ جمہور فقہاء اور محدثین‘ امام مالک‘ امام
شافعی اور امام احمد بن حنبل سحری کے وقت اس اذان کو مستحب کہتے ہیں۔
یہ بھی واضح رہے کہ ان دونوں اذانوں کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ
نہیں ہوتا تھا‘ بلکہ وہ فاصلہ بہت کم ہوتا تھا۔ جیسا کہ سیدہ عائشہr بیان
کرتی ہیں: ’’ایک اترتا اور دوسرا (اذان دینے کے لیے مینارہ پر) چڑھ جاتا تھا۔ ‘‘ (ابوداود‘
نسائی‘ الاذان: ۶۴۰)
اس سے قلت میں مبالغہ مقصود ہے‘ ہمارے نزدیک زیادہ سے زیادہ
فاصلہ نصف گھنٹہ کا ہونا چاہیے‘ اسے منٹوں میں بیان کیا جا سکتا ہے گھنٹوں میں نہیں۔
واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment